پاکستان میں صنعتی اور زرعی شعبوں کے لیے حکومت کی جانب سے ایک خوش آئند قدم اٹھایا گیا ہے۔
بجلی کی اضافی دستیابی کو مؤثر طریقے سے استعمال میں لانے کے لیے سرپلس پاور پیکیج متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پیکیج کے تحت صنعتی اور زرعی صارفین کو اضافی بجلی کے استعمال پر رعایتی نرخوں کی پیشکش کی جائے گی، جس کی ابتدائی تجویز 8 سے 9 سینٹ فی یونٹ کے مراعاتی ریٹ کی صورت میں زیر غور ہے۔
اس اقدام کا مقصد صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دینا، زرعی پیداوار میں بہتری لانا اور معیشت میں بہتری کے لیے بجلی کی دستیاب گنجائش کا مؤثر استعمال یقینی بنانا ہے۔ مجوزہ پیکیج میں نئی صنعتوں (گرین فیلڈ انڈسٹریز)، ڈیٹا سینٹرز اور کرپٹو مائننگ جیسے جدید شعبوں کو بھی شامل کیا گیا ہے، جو نہ صرف مقامی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتے ہیں بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی متوجہ کر سکتے ہیں۔
تاہم اس منصوبے پر عملدرآمد کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے وزیراعظم کے بجلی کے نرخوں میں کمی اور سبسڈی کے اقدامات پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ بجٹ میں اضافی سبسڈی فراہم نہ کی جائے۔ اس سے حکومت کے لیے ایک پیچیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں ایک طرف عوامی اور صنعتی مفاد میں بجلی سستی کرنا ضروری ہے ۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے بھی بچنا ہے۔موجودہ حالات میں حکومت کو ایک متوازن پالیسی اپنانا ہوگی تاکہ معیشت کو ریلیف بھی ملے اور مالیاتی نظم و ضبط بھی برقرار رہے۔ اگر اس پیکیج کو موثر انداز میں نافذ کیا گیا تو یہ پاکستان کی صنعتی ترقی، روزگار کے مواقع اور زرعی پیداوار میں نمایاں بہتری کا باعث بن سکتا ہے۔