پاکستان میں بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کرنا اب ایک خواب بن کر رہ گیا ہے، سرکاری اداروں سے ہٹ کر پرائیوٹ اداروں کی فیس لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں روپے سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ دیگر اخراجات بھی لاکھوں میں چلے جاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں، تقریباً تمام والدین امید کرتے ہیں کہ ان کے کم از کم ایک بچے کو انتہائی قابل احترام ،’ڈاکٹر‘ کا لقب مل جائے۔ تاہم جیسے جیسے طبی تعلیم کا شعبہ نجی اداروں پر تیزی سے انحصار کرتا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ سفید کوٹ اب ان لوگوں کے لیے مختص کیا جائے گا جو ’اپنے منہ میں سونے کا چمچ ‘لے کر پیدا ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں 5 سالہ بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری کے لیے کل ٹیوشن فیس 50 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔ اگرچہ نجی میڈیکل کالجوں نے اس پالیسی پر 2 سال تک عمل درآمد کیا لیکن اب وہ اسی ڈگری کی فیس کی مد میں ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کر رہے ہیں۔
فیسوں میں اضافے کے نتیجے میں طلبا اور ان کے والدین کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ انہیں 5 سالہ تعلیمی مدت کے دوران کتابوں، کپڑوں، نقل و حمل اور روزمرہ کے اخراجات پر 20 لاکھ روپے کا اضافی خرچ بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
پری میڈیکل کی ایک طالبہ نے سرکاری کالج میں داخلہ نہ ملنے کے بعد نجی میڈیکل کالج میں داخلہ لینے کا اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے سال کی 22 لاکھ روپے فیس کے علاوہ مجھے عطیات کے نام پر اضافی رقم جمع کرانے کے لیے کہا گیا جس کی کوئی رسید نہیں دی گئی۔
اگر ہم کالج کی ٹرانسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں تو سفری اخراجات کے طور پر سالانہ ایک لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح گرلز ہاسٹل میں رہنے کے لیے 50 ہزار روپے ماہانہ فیس مانگی جاتی ہے۔ ہمارے والدین شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں کیونکہ ہماری تعلیم کے لیے رقم ادا کرنا ان کے بس سے باہر ہوگیا ہے ۔
نجی میڈیکل کالج میں میڈیکل سیکنڈ ایئر کے طالب علم نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علی مرتضیٰ نے تصدیق کی کہ فیکلٹی نامکمل ہونے کے باوجود نجی اداروں میں طالب علموں سے بہت زیادہ فیس وصول کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہروں میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی اجارہ داری ہے اور وہ من مانی فیس وصول کر رہے ہیں۔ نتیجتاً میڈیکل کی تعلیم اتنی مہنگی ہو گئی ہے کہ کم سے درمیانی آمدنی والے والدین کے بچے ڈاکٹر بننے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی کے سابق ڈین آف بیسک سائنسز اور سندھ میڈیکل کالج کے سابق پروفیسر محمد ضیا اقبال نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی جانب سے فیسوں کے حوالے سے کوئی یکساں پالیسی وضع کرنے میں ناکام ہونے کے بعد سے نجی میڈیکل تعلیم ملک میں ایک تجارتی صنعت بن چکی ہے۔ ضیا اقبال نے دعویٰ کیا کہ نجی کالجوں کی سالانہ فیس میں 200 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب پی ایم ڈی سی نے نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کی جانب سے ٹیوشن فیسوں میں غیر معمولی، غیر اعلانیہ اور من مانے اضافے پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ 2019 سے 2021 تک ایم بی بی ایس کی سالانہ ٹیوشن فیس 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
تاہم پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی تحلیل کے بعد پاکستان میڈیکل کونسل نے ملک بھر کے میڈیکل کالجز کو اے، بی اور سی کیٹیگریز میں تقسیم کردیا جس کے بعد ان کالجز نے اپنی فیس خود طے کرنا شروع کردی۔
کچھ میڈیکل کالج ہر سال 10 سے 20 فیصد اضافی فیس وصول کر رہے ہیں۔ کراچی کا ایک بین الاقوامی میڈیکل کالج 5 سال کی فیس 90 ہزار امریکی ڈالر وصول کر رہا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پی ایم ڈی سی عملی طور پر غیر فعال ہو چکا ہے۔ دوسری جانب سرکاری میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں میڈیکل تعلیم کے لیے محدود نشستیں مختص کی جاتی ہیں۔
سندھ کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کے لیے مجموعی طور پر 2450 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں سرکاری میڈیکل کالجز کی تعداد 12 ہے جبکہ سرکاری ڈینٹل کالجز کی تعداد 7 اور سرکاری میڈیکل یونیورسٹیوں کی تعداد 6 ہے۔
پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل نے 8 جنوری 2025 کو ایک عوامی نوٹس جاری کیا ہے جس میں نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تعلیمی سال 2024-25 کی فیسیں اس وقت تک وصول نہ کریں جب تک کہ نائب وزیراعظم کی سربراہی میں وزیراعظم کی قائم کردہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی ٹیوشن فیسوں پر نظر ثانی کے حوالے سے فیصلہ نہیں کر لیتی۔