خیبرپختونخوا حکومت کا متنازعہ اقدام، جنگلات میں مائننگ کیلئے این او سی کی تیاری

خیبرپختونخوا حکومت کا متنازعہ اقدام، جنگلات میں مائننگ کیلئے این او سی کی تیاری

خیبرپختونخوا حکومت نے متنازعہ اقدام اٹھاتے ہوئے پہلی مرتبہ صوبے کے تمام اقسام کے جنگلات ریزروڈ، پروٹیکٹڈ، گزارہ اور ریزیومڈ لینڈ میں مائننگ کی مشروط اجازت دینے کیلئے منصوبہ بندی کرلی ہے ۔ اس مقصد کے لیے محکمہ معدنیات اور محکمہ جنگلات نے مشترکہ طور پر نئے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) تیار کر لیے ہیں۔

مائننگ کی اجازت قیمتی معدنیات، جیسے سونا، پلاٹینیم، لیتھیم، کوبالٹ، تانبا اور دیگر معدنیات کے حصول کے لیے دی جائے گی۔ اس عمل کی نگرانی محکمہ جنگلات کے چیف کنزرویٹو کی سربراہی میں قائم ایک کمیٹی کرے گی جو ہر درخواست کا ماحولیاتی، سماجی اور معاشی پہلوؤں سے جائزہ لے گی۔ اگر کمیٹی یہ سمجھے کہ مائننگ کے فوائد قدرتی وسائل کی اہمیت سے بڑھ کر ہیں تو این او سی جاری کی جا سکے گی۔

موجود دستاویزات کے مطابق نئے قواعد کے تحت ہر قسم کے جنگلات میں مشروط طور پر مائننگ ممکن ہو سکے گی۔ درختوں کی کٹائی کی صورت میں معاوضہ اور کرایہ وصول کیا جائے گا، جبکہ پختہ سڑکوں کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد ہو گی، صرف عارضی سڑکوں کی مشروط اجازت دی جائے گی۔ ہر مائننگ منصوبے کے ساتھ ایک بحالی اور ماحولیاتی تحفظ کا پلان تیار کرنا بھی لازم ہوگا۔ مائننگ کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے درخواست چیف کنزرویٹر کو جمع کرائی جائے گی، جس کے بعد مکمل کیس 30 دن کے اندر متعلقہ کمیٹی کو پیش کیا جائے گا۔ منظوری کی صورت میں ایک باقاعدہ معاہدہ کیا جائے گا جس میں ماحولیاتی، مالیاتی اور قانونی ذمہ داریاں شامل ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں 2500 طلبا کی ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ خصوصی نشست، طلبا کے ’پاکستان ہمیشہ زندہ باد ‘ کے فلک شگاف نعرے

ماحولیاتی ماہرین نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے “جنگلات کے تابوت میں آخری کیل” قرار دیا ہے۔ ماہر ماحولیات ڈاکٹر محمد نفیس کے مطابق، مائننگ سے نہ صرف جنگلات کی کٹائی ہوگی بلکہ مقامی آبادی اور جنگلی حیات بھی شدید متاثر ہوں گے۔ “مقامی لوگ ان جنگلات پر انحصار کرتے ہیں، ان کے مال مویشیوں کو چارہ یہیں سے ملتا ہے، اور اگر گھاس ختم ہو گئی تو ان کا ذریعہ معاش ختم ہو جائے گا۔ علاوہ ازیں، مائننگ کے دوران ہونے والی بلاسٹنگ سے جانور اور پرندے خوفزدہ ہو کر علاقہ چھوڑ دیں گے، خاص طور پر بریڈنگ سیزن میں،”۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی پالیسیاں کاغذوں میں تو بہت خوبصورت ہوتی ہیں، لیکن زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں۔ “جنگلات کے متبادل کے طور پر قریبی بنجر پہاڑوں پر درخت لگانے کی بات کی جا رہی ہے، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں۔ ساتھ ہی مائننگ کے نتیجے میں نکلنے والا ملبہ پانی کے ذخائر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟”

مائننگ کے شعبے میں تجربہ رکھنے والے فضل رازق کے مطابق، “جس علاقے میں مائننگ ہو گی، وہاں کم از کم کچا راستہ ضرور بنایا جائے گا، جو بعد میں ٹمبر مافیا کے لیے راستہ بن سکتا ہے۔ ابھی تک جو جنگلات محفوظ ہیں، ان کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہاں رسائی ممکن نہیں۔” انہوں نے خبردار کیا کہ درختوں کی کٹائی اور زمین کھودنے سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔ “جہاں کرَش مشینیں چلیں گی، وہاں آلودگی بڑھے گی۔ اس کے علاوہ لیز ہولڈرز کو مخصوص تعداد میں درخت لگانے کا پابند بنانا ضروری ہے۔”

رابطہ کرنے پر سیکرٹری معدنیات مطہر زیب نے بتایا کہ مجوزہ ایس او پیز کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی ہے۔ تاہم، انہوں نے دیگر سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا۔

ذرائع کے مطابق، جنگلات میں مائننگ کی اجازت دینے سے یہ خدشہ موجود ہے کہ صوبائی اثاثے نیشنلائز نہ ہو جائیں اور صوبے کا ان پر اختیار ختم نہ ہو جائے۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *