نئے مالی سال 2025-26 کے وفاقی بجٹ کے لیے آئی ایم ایف کی سخت تجاویز میں عوام کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کو تیار ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی تجاویز پر عمل درآمد کرتے ہوئے سخت مالیاتی اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بجٹ میں پرتعیش اشیا پر عائد سیلز ٹیکس کو 25 فیصد سے بھی بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے، جب کہ ان اشیا کی فہرست میں مزید مصنوعات کو شامل کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی معاشی ٹیم اور آئی ایم ایف کے درمیان بجٹ سازی کے حوالے سے ورچوئل بات چیت کا سلسلہ جاری ہے، جس میں ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور مالی خسارے میں کمی کے لیے سخت تجاویز زیر غور آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ٹیکس نظام میں شفافیت لائی جائے، ٹیکس چوری کی روک تھام کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا جائے اور ٹیکس حکام کو اختیارات کے مؤثر استعمال کی اجازت دی جائے۔
ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے ٹیکس نادہندگان کے خلاف سخت اقدامات کرنے اور پی او ایس (پوائنٹ آف سیل) پر ٹیکس چوری کی صورت میں جرمانہ 5 لاکھ سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس چوری پر جرمانے کے علاوہ فوجداری مقدمات درج کرنے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئندہ بجٹ میں سولر پینلز سمیت تمام شعبوں کو دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی تجویز بھی شامل ہے، جو ایک طرف توانائی کے متبادل ذرائع کو متاثر کرے گی اور دوسری جانب مہنگائی کا نیا بوجھ عوام پر ڈال سکتی ہے۔ اسی طرح کھاد، زرعی اسپرے اور آلات پر بھی 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) عائد کرنے کی تجویز ہے جب کہ زرعی ان پٹس اور مشینری پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ بھی زیر غور ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ تمام تجاویز بجٹ میں شامل کی جاتی ہیں تو مہنگائی میں مزید اضافہ، زرعی پیداوار پر دباؤ اور توانائی کے متبادل ذرائع کی حوصلہ شکنی جیسے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں،تاہم حکومت کی کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو یقینی بنا کر قرض کی نئی قسط حاصل کی جائے تاکہ ملکی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
آئندہ بجٹ میں کیے جانے والے یہ ممکنہ اقدامات جہاں بین الاقوامی اداروں کے مطالبات کی تکمیل کا حصہ ہیں، وہیں ملکی معیشت میں استحکام پیدا کرنے کی حکومتی کوششوں کی عکاسی بھی کرتے ہیں، تاہم ان کا اثر براہ راست عوام کی جیب پر پڑنے کا خدشہ ہے۔