خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے : شدت4.4 ریکارڈ

خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے : شدت4.4 ریکارڈ

خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکوں نے شہریوں کو خوفزدہ کر دیا۔ زلزلے کے جھٹکے مانسہرہ، بٹگرام، تورغر اور اپر ہزارہ ڈویژن کے دیگر حصوں میں محسوس کیے گئے، جس کے بعد لوگ خوف کے عالم میں گھروں سے باہر نکل آئے اور کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق زلزلے سے کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ تاہم، زلزلے کے باعث شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

زلزلہ پیما مرکز کے مطابق گزشتہ رات بلوچستان کے علاقے ژوب اور اس کے گردونواح میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے۔ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 4.4 ریکارڈ کی گئی، جبکہ اس کی گہرائی 40 کلومیٹر تھی۔ زلزلے کا مرکز ژوب سے 60 کلومیٹر جنوب مشرق کی سمت میں واقع تھا۔

زلزلے کیوں آتے ہیں ؟
ماہرین کے مطابق زمین کی تہہ تین بڑی پلیٹوں سے بنی ہے۔ پہلی تہہ کا نام یوریشین، دوسری انڈین اور تیسری اریبئین ہے۔ زیر زمین حرارت جمع ہوتی ہے تو یہ پلیٹس سرکتی ہیں۔ زمین ہلتی ہے اور یہی کیفیت زلزلہ کہلاتی ہے۔

زلزلے کی لہریں دائرے کی شکل میں چاروں جانب یلغار کرتی ہیں۔زلزلوں کا آنا یا آتش فشاں کا پھٹنا، ان علاقوں ميں زیادہ ہے جو ان پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں ایک مرتبہ بڑا زلزلہ آ جائے تو وہاں دوبارہ بھی بڑا زلزلہ آ سکتا ہے۔

زلزلہ قشر الارض سے توانائی کے اچانک اخراج کی وجہ سے رونما ہوتا ہے، يہ توانائی اکثر آتش فشانی لاوے کی شکل ميں سطح زمين پر نمودار ہوتی ہے۔ دنیا کے 80 فیصد سے زیادہ زلزلے بحرالکاہل کے کناروں پر ہوتے ہیں جسے رنگ آف فائر یعنی آگ کا دائرہ کہا جاتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زمین کے اندر آتش فشانی سرگرمی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر زلزلے فالٹ زون میں آتے ہیں، جہاں ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑتی ہیں۔ ٹیکٹونک پلیٹیں وہ پتھریلی چٹانیں ہیں جن سے زمین کی باہر والی تہ بنی ہوئی ہے۔

ان پلیٹوں کے رگڑنے یا ٹکرانے کے اثرات عام طور پر زمین کی سطح پر محسوس نہیں ہوتے لیکن اس کے نتیجے میں ان پلیٹوں کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ جب یہ تناؤ تیزی سے خارج ہوتا ہے تو شدید لرزش پیدا ہوتی ہے جو جسے سائزمک ویوز یعنی زلزلے کی لہر کہتے ہیں۔

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *