حکومت پاکستان نے تقریباً 44 ہزار افغان شہریوں کے لیے کسی تیسرے ملک میں منتقلی کی منظور کی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے ایک ماہ بعد غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ فیصلہ وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر صدارت انسداد دہشتگردی کمیٹی اور ریاستی رابطہ کمیٹی کے تیسرے اجلاس میں کیا گیا۔
حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ اگر ممکنہ میزبان ممالک نے 30 اپریل تک انہیں دوسری جگہ منتقل نہیں کیا تو وہ مغرب میں آباد کاری کے منتظر ہزاروں افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دے گی۔ اگست 2021 میں امریکی قیادت والی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد دسیوں ہزار افغان انتقام کے خوف سے پاکستان آئے تھے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک 1.023 ملین افغانوں کو واپس بھیجا جا چکا ہے۔ اپریل میں ایک لاکھ 35 ہزار 865 اور مئی میں مزید 65 ہزار 57 افراد کو وطن واپس لایا گیا۔ صرف 30 مئی کو 1483 افراد کو وطن واپس لایا گیا۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے تمام اداروں سے ون ڈاکیومنٹ نظام کے نفاذ کے لیے تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے، اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی اداروں کو قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے غیر قانونی اسپیکٹرم کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط کرنا چاہیے اور اس بات پر زور دینا چاہیے کہ تمام اداروں کو ‘ون ڈاکیومنٹ نظام’ پر مکمل عمل درآمد کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نادرا ایگزٹ پوائنٹس پر براہ راست ڈیٹا کی تصدیق کی سہولت فراہم کرے گا۔ بھکاری مافیا کا حوالہ دیتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ ان سے سختی سے نمٹا جانا چاہیے کیونکہ وہ ملک کی شبیہ خراب کر رہے ہیں۔ انہوں نے بھیک مانگنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کی ضرورت پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ملک بھر میں بجلی چوری کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، اجلاس کو پاور ڈویژن کے نمائندے کی جانب سے بتایا گیا کہ وزارت داخلہ اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے 142 ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی چوری کی روک تھام کے لیے وزارت توانائی اور صوبائی حکومتوں کو ہر ممکن تعاون فراہم کیا جارہا ہے۔ اجلاس میں تجاوزات کے خلاف آپریشن پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔
امن و امان کے قیام کے حوالے سے اجلاس کو بتایا گیا کہ روزانہ کی بنیاد پر انٹیلی جنس کی بنیاد پر 250 سے زیادہ آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
اجلاس میں پاکستان پورٹ اتھارٹی کے قیام پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا، ‘گوادر سیف سٹی پراجیکٹ’ کے علاوہ حفاظتی دیوار کی تعمیر پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس کے علاوہ غیر قانونی اور اسمگل شدہ ایندھن کی فروخت کو روکنے کے لیے پیٹرول پمپس کی ڈیجیٹلائزیشن پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔ نئے قوانین کے مطابق خلاف ورزی کی صورت میں کسٹم افسران اور متعلقہ ڈپٹی کمشنر کو پیٹرول پمپس کو سیل کرنے اور گاڑیاں ضبط کرنے کا اختیار ہوگا۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ دریائے سندھ پر ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشنز قائم کیے جا رہے ہیں جبکہ موٹروے اور ہائی وے کی مؤثر مانیٹرنگ کے لیے انٹیلیجنٹ ٹرانس پورٹیشن سسٹم (آئی ٹی ایس) پر بھی کام جاری ہے۔
اس کے علاوہ وزیر مملکت برائے داخلہ محمد طلال چوہدری، وزیر قانون پنجاب صہیب احمد بھارتی، خیبر پختونخوا کے مشیر اطلاعات محمد علی سیف اور گلگت بلتستان کے وزیر داخلہ شمس الحق لون، وفاقی سیکریٹری داخلہ، تمام صوبوں کے ہوم سیکرٹریز کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل، اجلاس میں نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر، اسلام آباد کے چیف کمشنر، نیشنل ایکشن پلان کے کوآرڈینیٹر اور سیکیورٹی اداروں کے سینئر حکام نے بھی شرکت کی۔