وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے عوامی و سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اعلان کردہ تحریک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگی کیونکہ پارٹی اس وقت ایسی کسی بھی کوشش کی قیادت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:رانا ثنا اللہ کی ملک کے داخلی استحکام کے لیے قوم سے اہم اپیل
انہوں نے زور دے کر کہا کہ عمران خان کی قائم کردہ پارٹی وزیر اعظم شہباز شریف کی مذاکرات کے لیے ملاقات ک پیشکش کو قبول کرے اور انتخابی قوانین میں ترمیم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ بیٹھے۔
فیصل آباد میں عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ اپوزیشن کو ملک کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے حکومت سے بات کرنی چاہیے کیونکہ معاشی خوشحالی ہر فرد کا مسئلہ ہے۔
اس سے قبل نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاجی تحریک کی تازہ ترین کال پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت حریف جماعت کو 9 مئی 2023 یا 26 نومبر 2024 جیسا کچھ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ جیل سے مرکز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کے خلاف اپنی پارٹی کی آئندہ احتجاجی تحریک کی قیادت کریں گے۔
عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے سینیٹرعلی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی پارٹی قیادت کو ہدایت کی کہ وہ وفاقی حکومت کے خلاف آنے والی ملک گیر احتجاجی تحریک کو فیصلہ کن بنائیں۔
مزید پڑھیں:بانی پی ٹی آئی عمران خان جعلی حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے : بیرسٹرسیف
تاہم رانا ثنا اللہ نے ملک کے موجودہ سیاسی ماحول میں ایسی کسی بھی تحریک کی کامیابی سے انکار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی شخصیت کی حیثیت سے میرے خیال کے مطابق پی ٹی آئی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان لوگوں کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش کی روشنی میں ماضی جیسی تحریک چلانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
رانا ثنا اللہ نے احتجاجی تحریک کے امکان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ایسا کچھ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو یہ ایک ناکام کوشش ہوگی۔
وفاقی مشیر نے اس سے قبل اصرار کیا تھا کہ اپوزیشن کو پہلے معاشی معاہدہ کرنا چاہیے جس کے بعد سیاست سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت کی جائے گی، پاکستان کو درپیش مسائل پر قومی اتفاق رائے ہونا چاہیے۔
رانا ثنااللہ نے مزید کہا کہ حکومت نے نہ صرف پی ٹی آئی کو پیشکش کی بلکہ پارٹی کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مذاکرات کرنے کی کوشش بھی کی، جس میں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق بھی شامل تھے۔
لیکن پی ٹی آئی کی قیادت بالخصوص عمران خان سیاسی مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے۔
واضح رہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اختلافات پر مشاورت پر اتفاق کیا تھا جس کے بعد حکومت نے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل نہ ہونے پر حکومتی وفد کے ساتھ تین اجلاسوں میں شرکت کے بعد اچانک مذاکراتی عمل سے دستبرداری اختیار کرلی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:بانی پی ٹی آئی عمران خان جعلی حکومت سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کریں گے : بیرسٹرسیف
رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کی قیادت پی ٹی آئی کو ایک سیاسی جماعت سمجھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے دو بار ان کی قیادت کو آنے اور مذاکرات کی دعوت دی لیکن پارٹی نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
وزیر اعظم نے گزشتہ ماہ قومی اسمبلی کے فلور پر اپنی تقریر کے دوران پی ٹی آئی سے قومی مکالمے میں شامل ہونے کی اپیل کی تھی جبکہ گزشتہ چند ماہ میں بھی اسی طرح کی پیش کش کی گئی تھی۔
وزیر اعظم کے معاون نے کہا کہ وزیر اعظم کی پیش کش اب بھی موجود ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی دونوں فریقوں کے درمیان ثالثی پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
دریں اثناء پی ٹی آئی کو پارٹی کے اندر ہم آہنگی برقرار رکھنے کے چیلنجز کا سامنا ہے، عمران خان نے خود کو اس کا پیٹرانچیف قرار دیا ہے جبکہ بیرسٹر گوہرعلی خان پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہیں گے۔
یہ اقدام مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کے چوری شدہ مینڈیٹ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ملک گیر احتجاجی مہم کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ پی ٹی آئی نے ابھی تک اپنے مجوزہ احتجاج کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔