پشاور: ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسپورٹ کو ختم کرنے کی تجویز اور اس کے خلاف بعض سینئر افسران کے اصرار کے باعث صوبائی افسران کی ایسوسی ایشن، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور ڈائریکٹوریٹ ملازمین کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے۔ تجویز پر عملدرآمد کی صورت میں ڈائریکٹوریٹ کے 592 ملازمین کو سرپلس پول میں بھیج دیا جائے گا۔ دوسری جانب محکمہ ٹرانسپورٹ کے دفتر کے لیے 70 کروڑ روپے کی لاگت سے شروع کیا گیا پانچ منزلہ عمارت کا منصوبہ تاخیر اور بدانتظامی کے باعث بڑھ کر 1 ارب 38 کروڑ روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس صورتحال پر حکومت نے قیمتی سرکاری اراضی پر دفتر کی تعمیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
محکمہ ٹرانسپورٹ نے پشاور کے جی ٹی روڈ پر 15 کنال قیمتی اراضی پر پانچ منزلہ دفتر کی تعمیر کا منصوبہ 2020 میں شروع کیا، جسے صوبائی ترقیاتی ورکنگ پارٹی نے 22 اکتوبر 2020 کو منظور کیا۔ ابتدائی طور پر منصوبے کے لیے 70 کروڑ روپے کی لاگت کا تخمینہ لگایا گیا اور 10 کروڑ روپے فوری طور پر جاری بھی کیے گئے۔ تاہم تعمیراتی مواد کی قیمتوں میں اضافے کو جواز بنا کر ٹھیکیدار نے کام روک دیا، جس کے بعد منصوبے پر نظرثانی ہوتی رہی لیکن عملی پیش رفت نہ ہو سکی۔ محکمہ مواصلات و تعمیرات نے 70 کروڑ کے علاوہ مزید 20 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا جو 15 مارچ 2023 کو محکمہ ٹرانسپورٹ نے جاری کر دئیے تاہم پھر بھی کام کا آغاز نہ ہو سکا۔ بالآخر سی اینڈ ڈبلیو نے منصوبے کی نظرثانی شدہ لاگت 1 ارب 38 کروڑ روپے جاری کر دی جو سرکاری خزانے پر اضافی بوجھ بن گئی۔
20 کروڑروپے اضافی رقم جاری کرنے کے باوجود پیش رفت نہ ہونے پر محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے سی اینڈ ڈبلیو کو ارسال کردہ لیٹر میں موقف اختیار کیا ہے کہ اگر بیس کروڑ روپے ان کے اکاؤنٹ میں ہوتی تو اس پر ابتک 3 کروڑ 28 لاکھ 60 ہزار روپے کا منافع حاصل کیا جا سکتا تھا تاہم کام جاری نہ ہونے کی وجہ سے منافع والی رقم محکمہ ٹرانسپورٹ کو واپس کردی جائے۔
قیمتی سرکاری اراضی پر دفتر کی تعمیر میں تاخیر اور بڑھتی لاگت پر حکومت نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اینٹی کرپشن بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ ٹرانسپورٹ کو طلب کرتے ہوئے ہدایت کی، کہ اراضی کو کرایے پر دے کر کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ دوسری جانب موٹر وہیکل آرڈیننس 1965 کے سیکشن 70 کے مطابق، کمرشل اراضی صرف کاروباری مقاصد کے لئے ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ، رنگیز خان کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ اس اراضی کو پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت کمرشل استعمال میں لایا جائے اور اس حوالے سے اقدامات جاری ہیں تاہم ٹھیکیدار نے عدالت سے رجوع کر رکھا ہے اور نظرثانی شدہ پی سی ون تاحال پی اینڈ ڈی میں منظوری کا منتظر ہے جس کی وجہ سے تعمیراتی کام روک گیا ہے ۔ ذرائع کے مطابق محکمہ ٹرانسپورٹ نے حکومتی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعلی کے مشیر غیر ضروری کاموں میں عمل دخل کر رہا ہے ۔
وزیر اعلی ہاوس ذرائع کے مطابق حکومت اس وقت مختلف تجاویز پر غور کر رہی ہے جن کے مطابق ڈرائیونگ لائسنس کے اختیارات ڈائریکٹوریٹ سے لے کر ٹریفک پولیس کو دیئے جائیں۔ وہیکل ایمیشن ٹیسٹنگ اسٹیشنز انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے حوالے کیے جائیں۔ ڈائریکٹوریٹ کے اثاثے محکمہ بلدیات یا سیکریٹریٹ کو منتقل کیے جائیں جبکہ دیگر انتظامی اختیارات متعلقہ محکموں میں تقسیم کیے جائیں۔ پی ایم ایس کے ایک افیسر جو ایسوسی ایشن کے عہدیدار بھی ہے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈرائیونگ لائسنس کا اختیار صرف پولیس کو دینے سے حکومت کا نقصان ہوگا، کیونکہ ڈائریکٹوریٹ اف ٹرانسپورٹ ہر سال کروڑوں روپے حکومت کو دیتی ہے اور رواں مالی سال 80 کروڑ سے زائد کا ٹارگٹ دیا گیا ہے جبکہ پولیس کو ہونے والی آمدن میں ایک روپیہ تک حکومت کو نہیں دیتے بلکہ وہ خود ہی استعمال کرتے ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ آف ٹرانسپورٹ کا قیام 2002 میں محکمہ صنعت کے تحت عمل میں آیا تھا، جسے 2008 میں علیحدہ محکمہ بنا کر “محکمہ ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ” کا نام دیا گیا۔ اس ادارے کے تحت گاڑیوں کی فٹنس، کمپیوٹرائزڈ لائسنس، اخراج کی جانچ، ٹریفک پالیسی سازی اور منصوبہ بندی جیسے اہم امور سرانجام دینا ان کی ذمہ داریوں میں ہیں۔ دوسری جانب، 1965 کے موٹر وہیکل آرڈیننس کے تحت قائم ریجنل ٹرانسپورٹ بورڈ 1995 سے غیر فعال ہے۔ اس وقت یہ بورڈ صرف اپنے اثاثوں کی نگرانی کر رہا ہے جن میں پشاور میں 54 کنال پر مشتمل جی ٹی ایس بس ٹرمینل، ڈائیو کمپنی کو دی گئی 10 کنال اراضی اور بنوں میں زیر تعمیر ریجنل دفتر کے لیے مختص 30 مرلہ زمین شامل ہے۔
معاون خصوصی برائے ٹرانسپورٹ رنگیز خان کا کہنا ہے کہ گروپ بندیوں اور اندرونی کشیدگی کے باعث مسائل نے شدت اختیار کر لی ہے تاہم وہ ذاتی کوششوں سے معاملات کو درست سمت میں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔