افغانستان کیسے دہشتگردی کا مرکز بنا اور کیسے افغان بچوں کو جہاد کی جانب راغب کرنے کے لیئے خصوصی سلیبس امریکی یونیورسٹی سے تیار ہو کر افغانستان پہنچتا رہا ، اس حوالے سے پہلی بار ہوشربا انکشافات سامنے آ ئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے انکشاف کیا ہے کہ 80 کی دہائی کے بعد سے افغانستان کو کیسے دہشت گردی اور جہاد کی فیکٹری میں تبدیل کیا گیا اس حوالے سے اہم حقائق پہلی بار عوام کے سامنے رکھے جا رہے ہیں کہ کیسے ملین ڈالرز امریکہ کی جانب سے خرچ کر کے افغان بچوں کو امریکہ کی یونیورسٹی کا تیار کردہ خصوصی سلیبیس پڑھایا جاتا تاکہ انہیں بچپن سے ہی جہاد کی جانب راغب کیا جا سکے۔
افغانستان میں بچوں کو جہاد ی سلیبیس پہنچانے والے کو ن لوگ تھے ، پرائمری سکول کے بچوں کے لیے منتخب سلیبس میں جہاد اور کلاشنکوف کو شامل کیا گیا ۔ آزاد ڈیجیٹل کو دستیاب حقائق کے مطابق اس جہادی پراجیکٹ پر امریکہ کی جانب سے ملین ڈالرز خرچ کیئے گئے اور 15 ملین سے زیادہ کتابیں پبلش کی گئیں جو افغانستان میں سکولز کے بچوں تک پہنچائیں گئیں تاکہ انہیں بچپن سے ہی جہاد اور ہتھیاروں کی جانب راغب کیا جا سکے۔
میجر جنرل (ر) زاہد محمود نے انکشاف کیا کہ امریکی یونیورسٹی نے افغان سٹڈی سینٹرز اور دیگر عوامل کی مدد سے افغانستان میں یہ کتابیں افغانستان میں پبلش کی اور اس پراجیکٹ کے لیئے امریکی اداروں کی جانب سے ہی 43 ملین روپے جاری کیئے گئے اور اس فنڈنگ سے 15 ملین سے زیادہ کتابیں چھاپی گئیں اور افغانستان کے سکولز تک یہ کتابیں اور لٹریچر پہنچایا گیا۔
میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے انکشاف کیا کہ پشتو میں پبلش کی گئی میتھ گریڈ ون کی اس بک میں جہاں گنتی کے عمل کو سکھایا گیا چھوٹے بچوں کو وہاں ہتھیاروں کی تعداد سے اس عمل کو بچوں کو سکھایا گیا جیسے ایک کے لیے کلاشنکوف کو ظاہر کیا گیا اور دو کو سکھانے کے لیئے دو چاقو ؤں کی تصویر دکھائی گئی ہے۔اسی طرح سے دیگر ہنسوں کو گرنیڈ اور دیگر ہتھیاروں کی مدد سے بچوں کی اسلحہ اور ہتھیاروں کی جانب ایک سوچی سمجھی سازش سے زہن سازی کی گئی ہے۔
اسی طرح سے انہوں نے کہا کہ دیگر مثالوں سے بچوں کی ایسی زہنی تربیت کرنے کئ کوشش کی گئی کہ بچپن سے ہی انہیں ہتھیاروں اور جہاد کی جانب راغب کیا جا سکے۔ اسی طرح سے جہاد کے حوالے سے بچوں کی روس کے خلاف زہن سازی کی گئی تاکہ وہ بچپن سے ہی روس کو اپنا دشمن سمجھتے ہوئے جہاد کی جانب راغب ہوں۔
اس حوالےسے میجر جنرل ریٹائرڈ زاہد محمود نے واضح کیا کہ اس طرح کا کلچر افغانستان میں بچوں کو سکھایا گیا اور انہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دہشت گردی اور جہاد کی جانب لایا گیا اور بعد ازاں یہ الزامات پاکستان پر عائد کیئے جاتے رہے کہ پاکستان جہاد کلچر کو فروغ دیتا رہا ہے اور بعد ازاں انہی بچوں کو عظیم جنگجوؤں سے تعبیر کر کے کہا جاتا رہا کہ کیسے یہ عظیم جنگجو ایک شیطانی ایمپائر سے نبر آزما ہو گئے۔
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن سے پاکستان کے دورے کے دوران ایک مرتبہ یہ اعتراف بھی کیا کہ دہشت گردی کے حوالے سے ہم سب یکساں زمہ دار ہیں۔اور آج امریکی صدر ٹرمپ ان عوامل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ان ماضی کی غلطیوں کو درست کیا جا سکے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ کتابیں ماضی میں پشتو اور دری زبان میں پبلش کی جاتی رہیں جو افغانستا ن کی ایک بڑی عوام میں بولی جاتیں ہیں۔انکا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی ان اقدامات کو مخلتف فورمز پر چیلنج کیا جاتا رہا ہے۔تاہم مختلف مواقعوں پر اس حوالے سے مربوط آواز نہیں اٹھائی گئی۔