اسرائیلی اخبار ’دی ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق اسرائیلی خبر رساں ادارے ایگزیوس نے اسرائیلی اور امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ 2 روز کے دوران امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اپنی نئی شروع کی گئی فوجی کارروائیوں میں شامل ہو اور اسرائیل کا ساتھ دے، لیکن امریکا فی الحال اس طرح کے اقدام پر غور نہیں کر رہا ہے۔
گزشتہ 48 گھنٹوں کے دوران اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملوں میں شامل ہو۔
اخبار کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے اسرائیل کی درخواست کی تصدیق کی اور کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ فی الحال تنازع میں شامل ہونے پر غور نہیں کر رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل بنیادی طور پر ایران کے زیر زمین فورڈو یورینیم افزودگی کے مقام کو تباہ کرنے کے لیے امریکی مدد چاہتا ہے، جو اسرائیل کی فوجی صلاحیت سے باہر ہوسکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر عہدیدار نے ایگزیوس کو بتایا کہ ایران پر اسرائیل کے حملوں سے جو کچھ بھی ہوتا ہے اسے روکا نہیں جا سکتا۔ لیکن اگر ایران چاہے تو ہم اس تنازع کے کامیاب پرامن حل کے لیے مذاکرات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایران کے لیے امن کے حصول کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ترک کر دے۔
اس سے قبل ایگزیوس نے خبر دی تھی کہ ٹرمپ نے حال ہی میں وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے کہا تھا کہ اگر تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس طرح کا اقدام ضروری ہو گیا تو امریکا فورڈو سائٹ پر حملہ کرنے پر غور کرے گا۔
وائٹ ہاؤس نے باضابطہ طور پر اس بات کی تردید کی ہے کہ ٹرمپ ایران پر کسی بھی امریکی حملے پر غور کر رہے ہیں۔