اسلحے پر نظر رکھنے والے سویڈن کے عالمی ادارے کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اپنےایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے نئی دہلی کے پاس 2024 میں 172، 2025 میں 180 ایٹمی ہتھیار تھے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اسلحے کی دوڑ دُنیا بھر میں ابھرنے والی ’خطرناک جوہری ہتھیاروں کی دوڑ‘ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، کیونکہ تقریباً تمام جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے 2024 سے اپنے ہتھیاروں کو جدید بنانا جاری رکھا ہوا ہے۔
ایس آئی پی آر آئی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ 9 جوہری طاقتیں امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، شمالی کوریا اور اسرائیل نہ صرف موجودہ ہتھیاروں کے ذخیرے کو اَپ گریڈ کر رہے ہیں بلکہ نئے جوہری ہتھیار بھی تیار کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں یوکرین اور غزہ میں جنگوں کی وجہ سے عالمی سلامتی کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایس آئی پی آر آئی کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کے ایسوسی ایٹ سینیئر محقق میٹ کورڈا نے کہا کہ ’یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جوہری ہتھیار سلامتی کی ضمانت نہیں دیتے ہیں‘۔
انہوں نے مثال دی کہ جیسا کہ بھارت اور پاکستان میں حالیہ کشیدگی نے واضح طور پر ظاہر کیا ہے کہ جوہری ہتھیار تنازعات کو روک نہیں سکتے ہیں۔ ان میں اضافے اور تباہ کن غلط اندازوں کے بے پناہ خطرات بھی ہیں، خاص طور پر جب غلط معلومات پھیل رہی ہوں، یہ کسی ملک کی آبادی کو کم محفوظ بنا سکتی ہے محفوظ کسی بھی طور پر نہیں بنا سکتی۔
پاک بھارت کشیدگی
ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2025 کے اوائل میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کچھ ہی عرصے میں مسلح تنازع میں تبدیل ہوگئی۔ بھارت نے 2024 میں نئی قسم کے نیوکلیئر ڈلیوری سسٹم تیار کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت نے اپنے ہتھیاروں کی تعداد میں قدرے اضافہ کرتے ہوئے 2024 میں اپنے ذخیرہ شدہ ہتھیاروں کی تعداد 172 سے بڑھا کر 2025 میں 180 کر دی ہے۔ بھارت کا جارحانہ روّیے کے باوجود پاکستان تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
بھارت نئے ’کنسٹرائزڈ‘ میزائل تیار کر رہا ہے، جو میزائل کے ساتھ منسلک ہونے کے دوران وار ہیڈز کو لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ، سمندر پر مبنی گشت کے ساتھ، امن کے دوران کچھ جوہری ہتھیاروں کو اپنے لانچروں کے ساتھ تعینات رکھنے کی طرف ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے.
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’یہ جوہری ہتھیار طیاروں، زمین سے چلنے والے میزائلوں اور جوہری توانائی سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوزوں کو تفویض کیے گئے ہیں‘۔ بھارت بیلسٹک میزائلوں پر متعدد وار ہیڈ نصب کرنے کی صلاحیت حاصل کررہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان بھارت کے جوہری ہتھیاروں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بھارت طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر زیادہ زور دے رہا ہے جو پورے چین میں اہداف تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
بڑی طاقتیں
جنوری 2025 میں تقریباً 12،241 وار ہیڈز کی کل عالمی فہرست میں سے تقریباً 9،614 ممکنہ استعمال کے لیے فوجی ذخیرے میں موجود تھے۔
ایک اندازے کے مطابق ان میں سے 3,912 کو میزائلوں اور جنگی طیاروں پر نصب کیا گیا تھا، جن میں سے تقریباً 2،100 کو بیلسٹک میزائلوں کے بارے میں ہائی آپریشنل الرٹ کی حالت میں رکھا گیا تھا، سوائے چند کا تعلق روس یا امریکا سے تھا۔
رپورٹ کے مطابق چین کے جوہری ہتھیاروں میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور 2025 کے اوائل تک ایک اندازے کے مطابق چین کے پاس ان کی تعداد 600 وار ہیڈز تک پہنچ جائیں گے۔
بیجنگ نے تقریباً 350 نئے میزائلوں پر کام شروع کر دیا ہے اور رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کے پاس اس دہائی کے اختتام تک اتنے ہی بین البراعظمی بیلسٹک میزائل ہو سکتے ہیں جتنے روس یا امریکا کے پاس ہوں گے۔
روس اور امریکا کے پاس اب بھی دنیا کے 90 فیصد جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اگرچہ ان کے فوجی ذخیرے 2024 میں مستحکم رہے، لیکن دونوں وسیع پیمانے پر جدید کاری کے پروگراموں پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ فروری 2026 میں دو طرفہ نیو اسٹارٹ معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد اگر کوئی نیا معاہدہ طے نہیں پاتا تو اسٹریٹجک میزائلوں پر نصب وار ہیڈز کی تعداد میں ممکنہ اضافہ ہو سکتا ہے۔