ویب ڈیسک۔ پاکستان کے حالیہ سفارتی اقدامات اور امریکہ کے ساتھ بڑھتے تعلقات نے بھارتی میڈیا میں شدید اضطراب پیدا کیا ہے، جب کہ بین الاقوامی میڈیا نے اس صورتحال کو ایک نئی سفارتی ترتیب کے طور پر رپورٹ کیا ہے۔
آزاد ریسرچ ڈیسک نے 19 جون صبح 10 بجے سے 20 جون صبح 10 بجے تک کے میڈیا کوریج کا جائزہ لیا ہے جس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں دیے گئے استقبالیہ کے تناظر میں بھارتی میڈیا میں سفارتی بے چینی، اسٹریٹیجک شکوک اور بوکھلاہٹ کا غالب لہجہ دیکھنے میں آیا۔
India Today نے اس ملاقات کو “ایک سفارتی تماشہ” قرار دیا جسے “ریاستی حکمت عملی کی شکل دی گئی”۔ بھارتی میڈیا نے اس بات پر شدید تنقید کی کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو کسی بھی سویلین نمائندے کے بغیر مدعو کیا گیا، اور ٹرمپ کی اس میزبانی کو “سفارتی اصولوں کی نئی تعریف” سے تعبیر کیا گیا۔
ٹرمپ کے اس دعوے پر کہ انہوں نے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کو روکا، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے مبینہ طور پر فون کال میں اس بات کو مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ مئی میں ہونے والے تصادم کا حل دو طرفہ تھا، نہ کہ کسی تیسرے فریق کی ثالثی سے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق بھارتی دفاعی مبصرین نے ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو انسداد دہشت گردی میں “شاندار شراکت دار” قرار دینے اور عاصم منیر کی تعریف کرنے کو پاکستان کے دہشت گردی سے متعلق ریکارڈ کی “صفائی” سے تعبیر کیا۔ Firstpost نے پاکستان پر دہشت گرد گروپوں کی مبینہ حمایت اور سرحد پر ڈرون سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے دوغلا رویہ قرار دیا۔
اس کے علاوہ بھارتی میڈیا نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) اور ورلڈ بینک کی پاکستان کے لیے نرمی پر بھی برہمی کا اظہار کیا، خاص طور پر اس 2.1 ارب ڈالرز کی امداد اور40 ارب ڈالرز کے اقتصادی وعدوں کے پس منظر میں، جب کہ بھارت پاکستان پر پہلگام حملے اور دیگر واقعات میں ملوث ہونے کا الزام لگاتا ہے۔
بھارت نے اپنی دفاعی حکمت عملی پر بھی کام تیز کر دیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، ایروناٹیکل ڈیولپمنٹ ایجنسی (ADA) نے مقامی کمپنیوں کو پانچویں جنریشن کے اسٹیلتھ فائٹر “ایڈوانسڈ میڈیم کامبیٹ ایئرکرافٹ (AMCA)” کے پروٹوٹائپ بنانے کی دعوت دی ہے، جسے چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے دفاعی تعلقات کا طویل المدتی جواب تصور کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا کا مؤقف
بین الاقوامی میڈیا نے اس صورتحال کو محتاط خوش بینی، حقیقت پسندی اور سفارتی ازسرنو ترتیب کے زاویے سے دیکھا۔ The Economist نے ٹرمپ اور منیر کی ملاقات کو وہائٹ ہاؤس کی مہمان نوازی جو بھارت کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہوئی قرار دیا۔ ملاقات دو گھنٹے سے زائد جاری رہی، اور ٹرمپ نے کہا ko دو ذہین لوگ، منیر اور مودی، نے جنگ جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا؛ یہ جنگ ایٹمی بھی بن سکتی تھی۔
The Guardian نے رپورٹ کیا کہ مودی نے واضح مؤقف اپنایا کہ یہ تصفیہ امریکہ کی ثالثی سے نہیں، بلکہ بھارت نے اپنے طریقے سے کیا۔
بی بی سی اردو اورڈی ڈبلیو نے بھی عاصم منیر کے دورہ امریکہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے جب کسی امریکی صدر نے کسی غیر ملکی فوجی سربراہ کو سویلین نمائندگی کے بغیر مدعو کیا ہو۔ تجزیہ کار مائیکل کوگل مین اور رضا احمد رومی نے اس خیال کی تائید کی کہ ٹرمپ پاکستان کی فوجی قیادت کو اصل طاقت سمجھتے ہیں۔
اس ملاقات میں ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی پر بھی بات ہوئی، اور ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان ایران کو دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔ یہ پاکستان کی سفارتی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا نے اس پہلو کو بھی نمایاں کیا کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نئی شکل دینے کے عمل میں ہے۔The Guardian کے مطابق،منیر کے ساتھ ٹرمپ کی گرمجوشی اور احتساب کی عدم موجودگی ایک بڑی سفارتی تبدیلی کا اشارہ ہے۔
Al Jazeera نے ٹرمپ اور منیر کے تعلقات کی تجارتی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ملاقات میں کرپٹو کرنسی اور نایاب معدنیات جیسے معاملات بھی زیر غور آئے، جو پاکستان کی عسکری معیشت سے جڑے ہیں۔ رضا رومی نے تبصرہ کیا کہ اگر یہ نیا آغاز ہے تو یہ وہ ہے جہاں وردی پھر سے بیلٹ پر غالب آ گئی ہے۔