ویب ڈیسک۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کی وزارتِ خارجہ نے دالائی لاما کے جانشین کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی حکومت مذہبی رسومات یا عقائد پر کوئی موقف نہیں اپناتی۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب دالائی لاما نے کہا کہ صرف ان کے قائم کردہ ٹرسٹ کو ہی ان کے جانشین کو تسلیم کرنے کا اختیار ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق بھارتی وزارتِ خارجہ کا یہ دعویٰ کہ بھارت مذہبی امور پر موقف نہیں اپناتا، سراسر دوغلا پن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو ریاستی سطح پر مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
اگر بھارت واقعی مذہبی غیر جانبداری پر یقین رکھتا، تو وہاں شہریت ترمیمی قانون (CAA) کبھی نافذ نہ کیا جاتا، جو مسلمانوں کو تیز رفتار شہریت کے حق سے خارج کرتا ہے۔ نہ ہی نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے اقدامات کیے جاتے، جن کا مقصد آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کرنا ہے۔
مزید برآں، بھارت میں ’ لَو جہاد‘ جیسے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے ذریعے مسلمان مردوں کو ہندو عورتوں سے شادی کرنے پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ ’کووِڈ جہاد‘اور ’تھوک جہاد‘ جیسے شرانگیز نعروں کے ذریعے مسلمانوں کو عالمی وبا کے دوران وائرس پھیلانے والا بنا کر پیش کیا گیا۔
بھارتی ریاست کی منافقت اس وقت مزید بے نقاب ہوتی ہے جب وہ ایک طرف تین طلاق جیسے نجی مذہبی معاملات پر فوری قانون سازی کرتی ہے، اور دوسری جانب گائے کے گوشت کے الزام پر مسلمانوں کو قتل کرنے والے ہجوموں کو کھلی چھوٹ دیتی ہے۔
شہری سطح پر مسلمانوں کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر مسلسل پروفائلنگ کی جاتی ہے، انہیں سیکورٹی رسک سمجھا جاتا ہے، اور رہائش تک کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ ریاستی سرپرستی میں بالی ووڈ ایسے فلمیں تخلیق کرتا ہے جو مسلمانوں کو غدار، ظالم اور مستقل “غیر” کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
آزاد ریسرچ کے مطابق یہ کہنا کہ بھارتی ریاست مذہب سے الگ رہتی ہے، سراسر جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب عالمی سطح پر مفاد ہو، تو بھارت مذہب سے لاتعلقی کا ڈھونگ رچاتا ہے، اور جب بات اپنے اقلیتی مسلمانوں کی ہو، تو پوری شدت سے مذہب میں مداخلت کرتا ہے، ظلم کرتا ہے، اور تعصب پھیلاتا ہے۔ یہ غیر جانبداری نہیں، بلکہ پالیسی کے لباس میں ڈھکی چھپی مذہبی عصبیت ہے۔