بھارتی ریاست اتر پردیش کے جنوب مشرقی حصے میں وادی گنگا کا سب سے سیاحتی مقام اور وزیراعظم نریندر مودی کے حلقہ انتخاب وارانسی کرپش کا گڑھ بن گیا، سڑکیں جدید انفراسٹرکچر کے بجائے ’بنکرز‘ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا ’ایکس‘ پر ایک بھارتی صارفی شروتی دھورے کی ایک پوسٹ نے بھارت بھر میں شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، پوسٹ میں بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی ) کی زیر قیادت حکومت پر کاشی ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کے تحت بڑے پیمانے پربدعنوانی کا الزام لگایا گیا ہے۔
Currently, India is the most corrupt country in the world.
📍 In Varanasi, under the Kashi Development project, ₹48,459 crores were spent, where roads have turned into bunkers.
انہوں نے اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’اس پروجیکٹ میں مبینہ طور پر48,459 کروڑ روپے کی کرپشن کی گئی ہے، شکایات ہیں کہ شہر میں سڑکیں جدید انفراسٹرکچر کے بجائے ’بنکرز‘ کا منظر پیش کر رہی ہیں، اس کے لیے انہوں نے اے آئی سے تیار کردہ ایک ویڈیو کلپ بھی شیئرکیا ہے۔
واضح رہے کہ وارانسی ریاست اتر پردیش کے جنوب مشرقی حصے میں وادی گنگا کے وسط میں واقع ندی کے بائیں کنارے پرواقع ہے۔ یہ بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے جنوب مشرق میں 692 کلومیٹر (430 میل) اور ریاست کے دارالحکومت لکھنؤ کے جنوب مشرق میں 320 کلومیٹر (200 میل) ہے۔
یہ پریاگ راج سے 121 کلومیٹر (75 میل) نیچے واقع ہے، جہاں یمنا ندی کے ساتھ سنگم ہندوؤں کا ایک اور اہم زیارت گاہ ہے، یہ بھارت کا انتہائی سیاحتی علاقہ ہے جہاں پر گنگا ندی کے باعث سیاح آتے ہیں، یہ وزیراعظم نریندر مودی کا حلقہ انتخاب بھی ہے۔
شروتی دھورے نے اپنی وائرل پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ بھاری بجٹ کے باوجود ترقیاتی کاموں کا معیار نہایت ناقص ہے۔ ان کے مطابق، ’سڑکیں بنکرز میں تبدیل ہو چکی ہیں، اور اس کی ذمہ داری ایم ایل ایز، ایم پیز، بلدیاتی نمائندوں، وارڈ کمشنرز، انجینئرز اور کنٹریکٹرز پر عائد ہوتی ہے، جن میں اکثریت کا تعلق بی جے پی آر ایس ایس سے ہے۔
ماہرین اور اپوزیشن کا کہنا ہے کہ منصوبے میں شفافیت اور پیشہ ورانہ معیار کا فقدان ابتدا سے موجود تھا۔ شروتی دھورے نے مزید لکھا کہ ’جب ’لٹیرے‘ سڑک کے کنارے کی منصوبہ بندی سے لے کر تعمیر تک کے کاموں کی ذمہ داری سنبھالیں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا‘۔
کاشی کاریڈور پروجیکٹ، جو وزیرِاعظم نریندرمودی کے حلقہ انتخاب ’وارانسی‘ میں شروع کیا گیا، کا مقصد شہر کو عالمی ہندو مذہبی اور ثقافتی مرکز میں تبدیل کرنا تھا۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ اب اقربا پروری، ناقص کام اور سیاسی جانبداری کی علامت بن چکا ہے۔
تاحال اتر پردیش حکومت یا مرکزی حکام کی جانب سے اس معاملے پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ دریں اثنا، سماجی کارکنان اور شفافیت کے علمبردار ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آڈیٹر جنرل آف انڈیا کی آڈٹ رپورٹ اور ایک آزادانہ انکوائری کے ذریعے اس منصوبے کی مالی تفصیلات اور عملدرآمد کی چھان بین کی جائے۔
واضح رہے کہ یہ پوسٹ ملک میں گورننس، کرپشن اور سیاسی اثر و رسوخ کے تحت ترقیاتی منصوبوں میں اقربا پروری پر نئی بحث چھیڑتی ہے، خصوصاً ایسے ہائی پروفائل منصوبوں میں، جو بظاہر ترقی کے نام پر شروع کیے جاتے ہیں، مگر درحقیقت بدعنوانی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں‘۔