پاک افواج نے برتری ثابت کی، جنگ نے مودی کی انتہاپسندانہ سیاست، نظریاتی جنون اور عسکری ناکامی کو بے نقاب کر دیا

 پاک افواج نے برتری ثابت کی، جنگ نے مودی کی انتہاپسندانہ سیاست، نظریاتی جنون اور عسکری ناکامی کو بے نقاب کر دیا

 پاک بھارت جنگ جسے بھارت نے آپریشن سندور  اور پاکستان نے “بنیان مرصوص” کے نام سے یاد رکھا   محض ایک عسکری جھڑپ نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی خطرناک یاد دہانی تھی کہ جنوبی ایشیا میں امن اب صرف اسلحے یا پالیسی سے نہیں، بلکہ نظریاتی جنون سے بھی خطرے میں ہے۔ مغرب میں شائع ہونے والے مضمون   ایک نازک وقفہ  جیسے تجزیے بظاہر توازن کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اصل محرکات کو نظر انداز کر کے ایک خطرناک سادگی میں لپٹا ہوا مؤقف پیش کرتے ہیں۔

اصل حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی موجودہ غیر یقینی صورت حال کی جڑیں بھارت کی اندرونی سیاسی ساخت میں پیوست ہو چکی ہیں، نریندر مودی کی زیرِ قیادت بی جے پی حکومت نے ریاستی اداروں، سلامتی کی پالیسیوں اور حتیٰ کہ جنگ و امن جیسے حساس معاملات کو بھی آر ایس ایس کے انتہا پسندانہ نظریات کے تابع کر دیا ہے۔ یہ محض ایک دفاعی ردعمل نہیں بلکہ ایک منظم حکمتِ عملی ہے، جس کا مقصد  خطے کے امن کوتباہ کرنا ہے ۔

 جنگ میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کو “دھیمے اور نپے تلے ردعمل” کا رنگ دیا گیا، لیکن میدانِ جنگ میں اس کا اصل مطلب خوف، بدحواسی اور ناکامی تھا۔ بھارتی فضائیہ کی کارکردگی اتنی مایوس کن تھی کہ ابتدائی جھٹکوں کے بعد دو دن تک اس کے جنگی جہاز فضا میں آنے کی ہمت نہ کر سکے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی نہ صرف بروقت تھی بلکہ نشانے پر بھی پوری اتری۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان نے ایٹمی دھمکیوں کے بغیر روایتی جنگی حکمت عملی کے ذریعے بھارت کو مؤثر پیغام دیا اور دھول چٹائی ، یہی اصل اعتماد کی علامت ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں :قوم پرستی کی لبادے میں لپٹی مودی سرکار کی اشتعال انگیزی کا سلسلہ جاری

مغربی میڈیا میں یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ بھارت نے جنگ بندی پر مجبور کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پسِ پردہ خود بھارت ہی نے امریکا سے مداخلت کی درخواست کی تاکہ باعزت واپسی کا راستہ مل سکے۔ جنگ بندی طاقت کے زور پر نہیں، بلکہ سیاسی و سفارتی بے بسی کے نتیجے میں ہوئی۔

یہ جنگ بھارت کے لیے عسکری نہیں بلکہ نظریاتی ناکامی تھی۔ جب ایک ملک کا حکومتی ڈھانچہ انتہا پسند قوم پرستی پر مبنی ہو، تو اس کے لیے ہر جنگ صرف ایک سیاسی مہم کا حصہ بن جاتی ہے۔ مودی سرکار نے بھی یہی کیا عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو بار بار دشمن بنا کر پیش کیا گیا، اور ہر کشیدگی کو داخلی سیاست کا ایندھن بنایا گیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں :بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ ، مسلم ممالک کیخلاف جارحیت کی منصوبہ بندی جاری

یہی وہ نکتہ ہے جسے مغربی تجزیہ کار یا تو نظر انداز کرتے ہیں یا جان بوجھ کر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں اگر کوئی حقیقی خطرہ ہے تو وہ ایٹمی ہتھیاروں یا عسکری صلاحیتوں سے زیادہ اس نظریے سے ہے جو جنگ کو “ووٹ بینک” بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

   جنگ نے یہ واضح کر دیا کہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ نہ تو عسکری توازن کا ہے اور نہ ہی ابلاغی غلط فہمیوں کا۔ اصل بحران بھارت کی اس سیاسی قیادت سے ہے جو مذہبی جنون اور ہندوتوا کے نظریے کو ریاستی پالیسی کا حصہ بنا چکی ہے۔ پاکستان نے اس بحران میں بالغ نظری، پیشہ ورانہ مہارت اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کیا  اور یہی راستہ خطے میں امن کا ضامن ہو سکتا ہے۔ لیکن جب تک بھارت اپنی داخلی سیاست سے اس زہریلے بیانیے کو نہیں نکالتا، جنوبی ایشیا بدستور ایک اور بڑے تصادم کے خطرے میں گھرا رہے گا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *