مقبوضہ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو اُس وقت بھارتی سیکیورٹی فورسز نے 13 جولائی 1931 کے شہدا کی قبروں پر فاتحہ خوانی سے روک دیا جب وہ سرینگر کے معروف مزارِ شہدا پہنچے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کے مطابق سیکیورٹی اہلکاروں نے نہ صرف انہیں وہاں جانے سے روکا بلکہ اُن کے ساتھ بدتمیزی کی اور بالآخر وزیر اعلیٰ کو دیوار پھلانگ کر قبرستان میں داخل ہونا پڑا۔
Paid my respects & offered Fatiha at the graves of the martyrs of 13th July 1931. The unelected government tried to block my way forcing me to walk from Nawhatta chowk. They blocked the gate to Naqshband Sb shrine forcing me to scale a wall. They tried to physically grapple me… pic.twitter.com/IS6rOSwoN4
یہ واقعہ جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہا ہے، جس پر کشمیری عوام اور سیاسی مبصرین کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بھارت کی جانب سے کشمیر میں اختیار کیے گئے آمرانہ طرزِ حکمرانی کو بے نقاب کرتا ہے، جہاں ایک منتخب نمائندہ بھی اپنی ہی سرزمین پر آزادانہ طور پر حرکت نہیں کر سکتا۔
ایک مقامی تجزیہ کار نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ یہ صرف اختیارات کا غلط استعمال نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا تذلیل آمیز اقدام ہے۔ کیا مہاراشٹرا، پنجاب یا تامل ناڈو کے کسی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ایسا سلوک ہو سکتا ہے؟ یہ رویہ صرف کشمیریوں کے لیے مخصوص ہے‘۔
13 جولائی 1931 کے شہدا وہ افراد تھے جنہیں ڈوگرہ راج کے خلاف احتجاج کے دوران گولی مار کر شہید کیا گیا۔ ہر سال اس دن کو یاد کر کے عوام ان شہداکو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ کی جانب سے مزار پر جانے کی کوشش اسی روایت کا حصہ تھی، مگر بھارتی ریاست کے سخت اور جارحانہ ردعمل نے اس لمحے کو ایک سیاسی تنازع میں بدل دیا۔
اس واقعے کے بعد کشمیری سیاست میں ایک بار پھر یہ سوال اُٹھنے لگا ہے کہ کیا ’مین اسٹریم‘ سیاست کے دعویدار، خاص طور پر عبداللہ اور مفتی خاندان جیسی روایتی جماعتیں، بھارت کے نوآبادیاتی قبضے کو مزید کتنا جواز فراہم کرتی رہیں گی؟
ایک مقامی کالم نگار نے کہا کہ ’ اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیری قیادت سچ بولے، بھارت کا کشمیر پر قبضہ جمہوری حکمرانی نہیں، بلکہ ایک تسلط ہے‘۔
اگرچہ بھارتی حکومت کی طرف سے تاحال اس واقعے پر کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، مگر عوامی غصے اور سیاسی ردعمل سے یہ بات واضح ہے کہ یہ واقعہ دہلی اور سری نگر کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف بھارتی ریاست کے لیے ایک شرمناک لمحہ ہے بلکہ کشمیری قیادت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ بھی ہے۔