ویب ڈیسک۔ تقریباً دو ماہ کی خاموشی کے بعد، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مودی کے مقرر کردہ لیفٹیننٹ گورنر نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ پہلگام واقعہ ایک سنگین سیکیورٹی ناکامی تھی۔ دنیا کے سب سے زیادہ عسکریت زدہ علاقوں میں شمار ہونے والی وادی میں، دن دہاڑے بے گناہ شہریوں کا قتل ہوا، اور اس کے باوجود بھارتی حکام تاحال اس بات پر واضح نہیں ہو سکے کہ حملہ آور کون تھے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق خود احتسابی کے بجائے نئی دہلی نے حسبِ روایت پاکستان پر الزام تراشی اور جنگی جنون پیدا کرنے کا راستہ اپنایا تاکہ اپنی ناکامیوں کو چھپایا جا سکے۔
ریسرچ کے مطابق اب بھارتی اسٹیبلشمنٹ نام نہاد “آپریشن سندور” کو طاقت کا مظاہرہ قرار دے رہی ہے، حالانکہ تاریخ نے اس قسم کی خالی بڑھکوں کی حقیقت بارہا بے نقاب کی ہے۔ بھارت نے جب آخری بار ایسا ہی مہم جوئی کا مظاہرہ کیا تھا تو اسے پاکستان کے “آپریشن سوفٹ ریٹورٹ” کا سامنا کرنا پڑا، جس میں دو بھارتی طیارے مار گرائے گئے، ایک MiG-21 کا پائلٹ زندہ گرفتار کیا گیا، اور ایک بھارتی آبدوز کو پاکستانی پانیوں کے قریب سے ذلت کے ساتھ واپس جانا پڑا۔
یہ واقعہ نہ صرف بھارتی بیانیے کو پاش پاش کر گیا بلکہ نئی دہلی حکومت کو خفت مٹانے کے لیے صفائیاں دینے پر مجبور کر دیا۔۔
آزاد ریسرچ کے مطابق اب جب کہ دہلی ایک بار پھر جنگی ڈھول پیٹ رہی ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ہر غیر ذمہ دارانہ اشتعال انگیزی کا انجام ہوتا ہے۔ “آپریشن سندور” کے جواب میں پاکستان کے “آپریشن بنیانُ مرصوص” نے ایک دوٹوک پیغام دیا۔ اس کارروائی میں بھارت کے چھ طیارے، بشمول ان کے شہرت یافتہ رافیل جنگی جہاز، نشانہ بنے؛ درجنوں جاسوس اور حملہ آور ڈرونز تباہ کیے گئے؛ اور بھارتی فوجی تنصیبات پر درست نشانے سے کی گئی کارروائیوں نے ان کے اگلے مورچوں پر کھلبلی مچا دی۔ یہاں تک کہ بھارتی فوج کو لائن آف کنٹرول پر سفید جھنڈے لہرانے پر مجبور ہونا پڑا۔
ریسرچ کے مطابق یہ مسلسل ذلت آمیز ناکامیاں بھارت کے کھوکھلے دعووں کی حقیقت کھول چکی ہیں۔ مودی حکومت ان محاذ آرائیوں کو طاقت کے اظہار کے طور پر نہیں، بلکہ اندرونی سیاسی فائدے، مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی بغاوت، اور اپنی سرحدوں کے اندر عدم تحفظ سے توجہ ہٹانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
خالی دعوے، ڈرامائی “آپریشنز” جیسے سندور، اور جھوٹے بیانیے اس حقیقت کو نہیں چھپا سکتے کہ بھارت کی فوجی مہم جوئیاں بار بار رسوائی پر منتج ہوئی ہیں۔ نئی دہلی کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اصل سلامتی قبضے اور پراپیگنڈے سے نہیں، بلکہ حقائق کو تسلیم کرنے اور زمینی حقیقتوں سے سیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔