نیٹو کے نئے سیکریٹری جنرل مارک روٹے نے بھارت، چین اور برازیل کو سخت لہجے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بھارت سمیت کسی بھی ملک نے روس کے ساتھ تیل و گیس کی تجارت جاری رکھی تو ان پر فیصد ثانوی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
یہ بیان امریکی سینیٹرز سے ملاقات کے بعد مارک روٹے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔
روٹے نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’اگر آپ چین کے صدر، بھارت کے وزیراعظم یا برازیل کے صدر ہیں، اور آپ روس کے ساتھ تجارت جاری رکھتے ہیں، تو آپ جان لیں کہ اگر ماسکو کا شخص (پیوٹن) امن مذاکرات کو سنجیدگی سے نہ لے، تو ہم مکمل معاشی پابندیاں لگائیں گے۔‘
انہوں نے تینوں ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’اگر آپ بیجنگ، دہلی یا برازیلیا میں ہیں، تو بہتر ہوگا کہ آپ اس صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لیں، کیونکہ یہ پابندیاں آپ کی معیشت کو بری طرح متاثر کر سکتی ہیں۔‘
نیٹو سربراہ نے خاص طور پر بھارت پر زور دیا کہ وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو امن مذاکرات کے لیے سنجیدہ رویہ اپنانے پر مجبور کرے، ان کے مطابق اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ بوجھ براہ راست بھارت، چین اور برازیل پر آئے گا۔
رپورٹس کے مطابق بھارت روس سے خام تیل خریدنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، مغربی دنیا کی جانب سے بارہا انتباہ کے باوجود مودی سرکار روسی درآمدات پر انحصار کم کرنے کو تیار نہیں، جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ بھارت اپنے معاشی مفادات کی خاطر یوکرین میں انسانی المیے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک روز قبل ہی اعلان کیا تھا کہ اگر 50 دن کے اندر یوکرین جنگ کا کوئی امن معاہدہ نہ ہوا، تو وہ روس پر سخت ترین تجارتی پابندیاں نافذ کریں گے اور ان تمام ممالک پر بھی ثانوی پابندیاں لگائیں گے جو روس سے تیل خرید رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق امریکی سینیٹ کے 100 میں سے 85 ارکان ایسے قانون کی حمایت کر چکے ہیں جس کے تحت ٹرمپ کو ان ممالک پر 500 فیصد تک ٹیرف لگانے کا اختیار حاصل ہوگا جو روس کے ساتھ تجارت جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے کہا ہے کہ روس امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن الٹی میٹم ناقابل قبول ہیں۔
ادھر بھارت نے اس معاملے پر اب تک کوئی واضح مؤقف نہیں دیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مودی سرکار کا روسی حمایت پر اصرار عالمی سطح پر بھارت کو تنہا کر سکتا ہے، یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت عالمی امن کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے، جہاں معاشی مفاد، انسانی جانوں سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔
عالمی برادری خصوصاً مسلم دنیا کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا ایک تجارتی پارٹنرشپ ظلم و جارحیت سے بڑے مسئلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔