بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے قومی سلامتی کی ناکامیوں، خارجہ پالیسی میں مبینہ غلطیوں اور انتخابات میں مبینہ دھاندلی جیسے اہم مسائل پر مودی سرکار کا گھیرا تنگ کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
یہ حکمتِ عملی یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی کی زیرِ صدارت ہونے والے کانگریس پارلیمانی پارٹی (سی پی پی ) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں تیار کی گئی، جس میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے، لوک سبھا میں قائد حزبِ اختلاف راہول گاندھی اور دیگر سینیئر رہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے راجیا سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر پرمود تیواری نے بتایا کہ پارٹی حکومت کو کئی اہم قومی معاملات پر جوابدہ بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
انہوں نے پہلگام فالس فلیگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اس حملے کو 3 ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، جس میں 26 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اب تک حکومت حملہ آوروں کا سراغ لگانے میں ناکام رہی ہے۔ دہشتگرد کہاں غائب ہو گئے؟ یہ قومی سلامتی میں سنگین کوتاہی ہے‘۔
برمود تیواری نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران فائر بندی میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ بھارتی حکومت نے نہ ان دعوؤں کی تردید کی ہے نہ تصدیق، اور ایسے معاملات پر خاموشی صرف شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس اس معاملے پر پارلیمنٹ میں وضاحت کا مطالبہ کرے گی۔
کانگریس کا ایک اور بڑا اعتراض مہاراشٹر، ہریانہ اور حالیہ طور پر بہار میں انتخابات کے دوران مبینہ بے ضابطگیوں پر ہے۔ پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ واقعات انتخابی اداروں کی ساکھ اور جمہوری عمل پر سنگین سوالات اٹھاتے ہیں۔
تیواری نے کہا کہ ’ہمارے انتخابی نظام کی شفافیت خطرے میں ہے۔ الیکشن کمیشن کے کردار خاص طور پر بہار اسمبلی انتخابات سے پہلے کے حالات ‘ پر بھی سوال اٹھتے ہیں‘۔
کانگریس اجلاس کے دوران خواتین اور درج مختلف ذاتوں کی ووٹر فہرست کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم، خصوصاً بہار، اتر پردیش اور اوڈیشہ میں، کو بھی ایوان میں اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، جموں کشمیر کو مکمل ریاستی حیثیت کی بحالی کا دیرینہ مطالبہ بھی دوبارہ اٹھایا جائے گا، جسے مرکزی حکومت کئی وعدوں کے باوجود پورا نہیں کر پائی۔
کانگریس اجلاس سے قبل دیگر حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ مشترکہ حکمتِ عملی تیار کی جا سکے اور ایوان بالا و زیریں میں اہم قومی معاملات پر مؤثر آواز بلند کی جا سکے۔