بھارت کی عالمی اقتصادی طاقت بننے کی آرزو کے باوجود، سابق گورنر ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) رگھورام راجن کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی ایک کمزور بنیاد پر قائم ہے، بھارت کی ترقی اس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ نقالی سے جدت کی طرف نہیں بڑھتا۔
سابقہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) گورنر رگھورام راجن ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس وقت خطرے کی گھنٹی بجاتے خبردار کر رہے ہیں کہ بھارت کی اقتصادی ترقی کمزور بنیادوں پر قائم ہے جب تک کہ یہ نقل سے جدت کی طرف منتقل نہ ہو جائے، بھارت کی معاشی کامیابی بیشتر مقامی اجارہ داریوں، ریاستی تحفظ پسندی اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ برانڈز کی کمی کی وجہ سے ہے۔
رگھورام راجن، جو اب یونیورسٹی آف شکاگو میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، نے دی ٹائمز آف انڈیا میں لکھتے ہیں کہ بھارت نے اب تک کوئی ایسا عالمی سطح پر تسلیم شدہ پروڈکٹ برانڈ پیدا نہیں کیا، حالانکہ اس کے پاس بڑا مقامی بازار اور بڑے کاروباروں کے لیے حکومتی حمایت موجود ہے۔
راجن کے مطابق، بھارت کی بڑی کمپنیاں مقامی سطح پر غالب ہیں، لیکن عالمی سطح پر ان کا کردار بہت محدود ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ “ہمارے پاس ایک بھی ایسی کمپنی نہیں ہے جو اپنے مصنوعات کے لیے دنیا بھر میں جانی جاتی ہو، نہ نِنٹینڈو، سونی یا ٹویوٹا، نہ مرسیڈیز، پورشے یا ایس اے پی۔”
اگرچہ بھارت نے اپنی کار مارکیٹ کو درآمدی ڈیوٹیوں کے ذریعے محفوظ رکھا ہوا ہے تاہم “کوئی بھی بھارتی کار ماڈل ترقی یافتہ دنیا میں بڑی تعداد میں فروخت نہیں ہوا۔”
راجن نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی آٹوموبائل برآمدات موجود ہیں لیکن یہ زیادہ تر بجٹ کے لحاظ سے محتاط یا چھوٹے بازاروں تک محدود ہیں، اس کے برعکس، چین جیسے ممالک اب عالمی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں، جدید بیٹری ٹیکنالوجیز اور خودکار ڈرائیونگ سسٹمز میں قیادت کر رہے ہیں۔
راجن کے مطابق، بھارت میں ٹیسلا کا داخلہ ایک دلچسپ اقدام لگ سکتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ زیادہ تر علامتی ہے، حکمت عملی نہیں، ٹیسلا ماڈل وائی، جو چین میں تیار کیا گیا ہے، بھارت کے اوسط خریدار کے لیے 56,000 ڈالر سے زیادہ قیمت میں آتا ہے، جو بہت زیادہ ہے اور مقامی پیداوار کے بغیر اور درآمدی ٹیکسز کے ساتھ جو قیمتوں کو 100 فیصد تک بڑھا سکتے ہیں، ٹیسلا کی گاڑیاں بھارت میں سستی الیکٹرک گاڑیوں کی طرف بڑے پیمانے پر تبدیلی کے طور پرنہیں بلکہ زیادہ ترلگژری نمائش کے طور پر رہ جائیں گی۔
یہ اقدام بھارت کو صاف توانائی کے اہداف میں مضبوط کرنے کے بجائے زیادہ تر شہری آبادی کو مطمئن کرنے کے لیے لگتا ہے، ایسے ملک میں جہاں عوامی سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی وسیع دستیابی کی ضرورت ہے، ایلون مسک کی طرف سے بلند و بالا، عیش و آرام کی ماڈلز کا تعارف بھارتی مارکیٹ کے موجودہ حالات سے الگ نظر آتا ہے۔
اس سے آگے، یہ حقیقت کہ ٹیسلا نے بھارت میں پیداوار قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا، نہ صرف مقامی شہریوں کی ملازمتوں کے مواقع میں کمی کا باعث ہے بلکہ “میک ان انڈیا” پروگرام کو بھی نقصان پہنچا رہا ہے، اس کے ذریعے خود انحصاری کے صنعتی مرکز میں حصہ لینے کا ایک بڑا موقع ضائع ہو رہا ہے۔
راجن بھارت کی موجودہ معاشی صورتحال پر بھی تنقید کرتے کہتے ہیں کہ یہ مقامی کمپنیوں کو اصل مسابقت سے بچاتی ہے، وہ اس نظام کو “بے خطرہ سرمایہ داری” کہتے ہیں، جہاں حکومتی پالیسیوں کے ذریعے غیر ملکی مسابقت کو روکا جاتا ہے، اور مقامی کمپنیاں نئے خیالات کی تخلیق کے بجائے نقل پر اکتفا کرتی ہیں۔
راجن کا کہنا ہے کہ ایسی حمایت کمپنیوں کو سست بناتی ہے، اور انہیں نئے تصورات تخلیق کرنے یا عالمی مارکیٹوں میں جانے کا دباؤ نہیں ہوتا۔
سابق گورنر نے بھارتی فارماسوٹیکل اور آئی ٹی جیسے شعبوں کا ذکر کیا، جہاں بھارت عالمی سطح پر کام کرتا ہے، لیکن یہاں بھی حقیقت میں کوئی بڑی جدت کا کام نہیں ہو رہا ، بھارتی دوا ساز کمپنیاں زیادہ تر جینرک ادویات تیار کرتی ہیں، جبکہ بھارتی سافٹ ویئر کمپنیاں جو 2000 کی دہائی کے اوائل میں عالمی سطح پر کامیاب ہوئیں، اب تک کوئی عالمی سطح پر کامیاب ڈیجیٹل پروڈکٹ تخلیق نہیں کر پائی ہیں، “کہاں ہے بھارتی ٹِک ٹاک، ڈیپ سیک، چیٹ جی پی ٹی، یا فورٹ نائٹ؟” وہ سوال کرتے ہیں ، بھارت کے پاس مقامی ورژن ہو سکتے ہیں، لیکن وہ اصل میں کمی رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
راجن اس کمزور تحقیق اور تعلیمی نظام کو بھی مورد الزام ٹھہراتے کہتے ہیں کہ بھارت میں مضبوط یونیورسٹی تحقیقاتی پروگرامز یا تحقیق کو تجارتی مصنوعات میں تبدیل کرنے کے لیے مناسب چینلز کی کمی ہے، وہ انوسندھن نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کے قیام کو سراہتے ہیں، لیکن ان کا ماننا ہے کہ اس کی فنڈنگ کو بہت زیادہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
ان مسائل کو حل کرنے کے لیے، راجن تجویز کرتے ہیں کہ درآمدی ٹیکس کم کیے جائیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے، اور اجارہ داریوں کو توڑا جائے تاکہ ایک زیادہ مسابقتی مقامی مارکیٹ قائم ہو۔ وہ تحقیق کے لیے بہتر فنڈنگ اور اعلیٰ تعلیم میں بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کرنے کی بھی بات کرتے ہیں۔
راجن کا کہنا ہے کہ صرف اقتصادی ترقی کافی نہیں ہے، کیونکہ آج کے جغرافیائی سیاسی ماحول میں بھارت کو جدید ٹیکنالوجی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے، وہ جاری یوکرین جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دفاعی لحاظ سے جدید ٹیکنالوجی اور حکمت عملی اہم ہو گئی ہیں۔
سابق بھارتی آر بی آئی گورنر نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ صرف بڑی معیشت بننا کافی نہیں ہے اگر بھارت اپنی آبادی بڑھنے سے پہلے امیر بننا چاہتا ہے، تو اسے جدت کو اپنانا ہوگا، ان کاکہنا ہے کہ “ہمیں دنیا کے سب سے زیادہ اختراعی ممالک میں سے ایک بننا ہوگا… اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری کمپنیاں عالمی سطح پر گھروں تک پہنچیں گی ۔