بھارتی جریدے دی وائر کے مطابق عارف الرحمان نامی شہری کو عدالت نے یہ ہدایت دی کہ وہ ’جئے ہند‘ کہتا ہوا ویڈیو روزانہ 3 بار ریکارڈ کرے اور آن لائن شیئر کرے۔ قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان اس فیصلے کو عدلیہ کی غیر جانبداری اور انصاف کے اصولوں کے منافی قرار دے رہے ہیں۔
دی وائر نے اس عدالتی شرط کو انصاف کے اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی قرار دیا ہے کہ ’ضمانت کسی شخص کی بے گناہی یا قصور کا فیصلہ نہیں کرتی‘۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس نوعیت کی شرائط نظریاتی وفاداری کو قانونی جبر کے ذریعے منوانے کی کوششیں ہیں، جو عدلیہ کو ریاستی سیاسی بیانیے کا آلہ کار بنا دیتی ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام عدلیہ کو ایک ایسا خطرناک راستہ دکھا رہا ہے جس میں انصاف، آئین اور شہری آزادیوں کی کوئی وقعت باقی نہیں رہتی۔ انسانی حقوق کے اداروں نے اس فیصلے کو اقلیتوں، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان پر جبری فکری غلامی مسلط کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
مودی حکومت کے دور میں عدلیہ، میڈیا اور قانونی اداروں پر نظریاتی اثرات کے الزامات پہلے ہی زور پکڑ چکے ہیں۔ ایسے میں آسام عدالت کا یہ فیصلہ، جسے ایک علامتی سیاسی وفاداری کی شرط کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، ان خدشات کو مزید گہرا کرتا ہے۔
دی وائر نے یاد دہانی کروائی کہ اس سے قبل بھی بھارتی عدالتیں ضمانت کے بدلے پی ایم کیئرز فنڈ میں عطیہ دینے یا اسپتالوں میں ٹی وی لگوانے جیسی شرائط عائد کر چکی ہیں ، جسے کئی حلقے انصاف کے ساتھ مذاق اور عدالتی اختیارات کے غلط استعمال سے تعبیر کرتے ہیں۔
قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایسے فیصلے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوال اٹھاتے ہیں اور اقلیتوں کو منصفانہ سماعت سے محروم رکھنے کے رجحان کو تقویت دیتے ہیں۔
عدالتی فیصلوں کا اس طرح نظریاتی رنگ اختیار کرنا ایک جمہوری، سیکولر اور آئینی بھارت کے اصولوں کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ بنتا جا رہا ہے، جہاں ’جئے ہند‘ کا نعرہ محض حب الوطنی کی علامت نہیں بلکہ ایک فکری وفاداری کی آزمائش میں بدل چکا ہے۔