ویب ڈیسک: آر ایس ایس-بی جے پی کی ہندوتوا مشینری آسام میں کھلے عام ایک متعصبانہ اور اقلیت مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت مقامی زمینوں کے تحفظ کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کو ان کے گھروں اور روزگار سے زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق آسام بی جے پی کے صدر دلیپ سائیکیا کے حالیہ بیان نے اس خطرناک ذہنیت کو بے نقاب کر دیا ہے، جس میں انہوں نے بنگالی نژاد مسلمانوں کو بنگلہ دیشی اور مشرقی پاکستانی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ آخری انچ زمین واپس لیے جانے تک بے دخلی جاری رہے گی۔
ریسرچ کے مطابق یہ کاروائیاں نہ تو ماحولیاتی تحفظ سے متعلق ہیں اور نہ ہی زمین کے تحفظ کے لیے ہیں، بلکہ یہ ایک سیاسی منصوبہ ہے جس کا مقصد آبادیاتی نقشہ بدل کر ایک پوری کمیونٹی کو بے دخل اور بے اختیار کرنا ہے۔ بی جے پی نے آسام میں کئی نسلوں سے آباد مسلمانوں کو آسام مخالف قرار دے کر دوہری شہریت کا ماحول بنا دیا ہے۔ جہاں این آر سی سے خارج شدہ ہندوؤں کو شہریت ترمیمی قانون کے تحت تحفظ دیا جا رہا ہے، وہیں مسلمانوں کو زمین، عزت اور حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق بے دخلی کی ان پرتشدد مہمات میں نہ صرف گھر بلکہ مساجد اور پوری بستیوں کو مسمار کیا جا رہا ہے، اور متاثرین کی بحالی کا کوئی بندوبست موجود نہیں۔ یہ تمام اقدامات آر ایس ایس-بی جے پی کے اس وسیع تر منصوبے کا حصہ ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر کمزور کر کے انہیں دوسرے درجے کے شہری بنانا ہے۔ آسام اب اس فرقہ وارانہ تجربے کی لیب میں تبدیل ہو چکا ہے، جہاں حکومت کا مطلب خوف اور جبری بے دخلی بن چکا ہے۔
ریسرچ کے مطابق بھارت کی حکمران جماعت کے رہنما کی اشتعال انگیز زبان نہ صرف ریاستی تشدد کو جواز فراہم کرتی ہے بلکہ یہ خطرناک بیانیہ بھی عام کرتی ہے کہ بھارتی مسلمان ہمیشہ سے غیر ملکی ہیں۔ آج آسام میں ہندوتوا کی عبارت مسلمانوں کے اجڑے گھروں پر لکھی جا رہی ہے، اور آر ایس ایس-بی جے پی مقامی حقوق کے تحفظ کا لبادہ اوڑھ کر ایک مخصوص کمیونٹی کو منظم طریقے سے بے دخل کرنے کی مہم چلا رہی ہے۔