خوشی کا عالمی انڈیکس2025: پاکستان کی برتری نے مودی سرکار کا بیانیہ چیلنج کردیا

خوشی کا عالمی انڈیکس2025: پاکستان کی برتری نے مودی سرکار کا بیانیہ چیلنج کردیا

انسانی مسرت اور خوشی انڈیکس  کے 2025 میں پاکستان نے بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا، خود کو چمکتی معیشت اور بڑی طاقت کے طور پر پیش کرنے کے خبط نے مودی سرکار کے بیانیے کو زوردار جھٹکا دیا ہے ، جہاں ترقی کے دعوے تو ہیں مگر عوام خوش نہیں۔

عالمی خوشی انڈیکس 2025 کے مطابق، پاکستانی عوام مبینہ طور پر بھارتیوں سے زیادہ خوش ہیں ، اس رپورٹ میں پاکستان کو 109ویں جبکہ بھارت کو 118ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

تاہم اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ ایک مختلف تصویر پیش کرتی ہے، جہاں پاکستان کو 164ویں، بھارت کو 132ویں اور بنگلہ دیش کو 130ویں پوزیشن پر رکھا گیا ہے۔

اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت معاشی طور پر مضبوط ہو سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ پاکستان سے زیادہ خوش بھی ہو، سینئر صحافی حامد میر کے حالیہ مضمون کے مطابق  معاشی ترقی ہمیشہ خوشی نہیں لاتی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام سخاوت میں بھی بھارتیوں سے آگے ہیں،  39.2 فیصد پاکستانی باقاعدگی سے خیرات کرتے ہیں، جب کہ بھارت میں یہ شرح 35.5 فیصد ہے،  سخاوت کو اکثر خوشحالی اور ذہنی اطمینان سے جوڑا جاتا ہے، جو پاکستان کے خوشی انڈیکس میں بہتر کارکردگی کی ایک ممکنہ وجہ ہو سکتی ہے۔

مزید برآں، مئی 2025 میں بھارت کے ساتھ ایک مختصر چار روزہ جنگ میں پاکستان کی عسکری فتح نے قوم کے مورال کو بلند کیا ہے،  اس فتح پر ملک بھر میں جشن منایا گیا، اور حکومت یومِ آزادی پر اسے دوبارہ سرکاری سطح پر منانے کی تیاری کر رہی ہے۔

 7 مئی کو پاکستان نے بھارت کے چھ لڑاکا طیارے مار گرائے، جن میں  رافیل طیارے بھی شامل تھے، جبکہ بھارت کسی بھی پاکستانی طیارے کو نشانہ بنانے میں ناکام رہا۔

عسکری محاذ کے ساتھ ساتھ سفارتی سطح پر بھی بھارت کو ہر محاذ پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ،  بھارت پاکستان کو پہلگام حملے سے جوڑنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کر سکا، جبکہ پاکستان نے بلوچستا‌ن میں بھارتی مداخلت کے شواہد کئی عالمی فورمز پر پیش کیے۔

حامد میر کے مطابق بھارت کو نہ صرف جنگی میدان بلکہ سفارتکاری میں بھی شکست ہوئی،  اگرچہ پاکستان میں کچھ حلقے بھارت سے موازنہ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں، کیونکہ بھارت کی آبادی اور معیشت کئی گنا بڑی ہے، لیکن پھر بھی بھارت اکثر خود کو پاکستان سے ہی موازنہ کرتا ہے، جو بعض کے نزدیک اس کے تکبر کی علامت ہے۔

اگرچہ عسکری اور سفارتی کامیابیاں قومی حوصلے کو بلند کرتی ہیں، لیکن اصل چیلنجز اُن محاذوں پر موجود ہیں جہاں اُسی اتحاد اور عزم کی ضرورت ہے جو جنگ کے دوران دکھایا جاتا ہے۔

پاکستان میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ بھارت سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ بھارت کی آبادی اور معیشت پاکستان سے کہیں بڑی ہے۔ ان کے نزدیک بھارت جیسے ملک کو چین یا روس جیسے طاقتور ممالک سے خود کا موازنہ کرنا چاہیے۔

لیکن اس واضح فرق کے باوجود، بھارت مسلسل خود کو پاکستان سے موازنہ کرتا ہے  جو کچھ حلقوں کے نزدیک غرور اور تکبر کی علامت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی معاشی کامیابیاں اور عالمی حیثیت بھی ان مسائل پر پردہ نہیں ڈال سکیں، جو عالمی خوشی انڈیکس میں کم درجہ بندی اور آزادیِ صحافت کی گرتی ہوئی صورتحال سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے ماڈل کی نشان دہی کرتے ہیں جس میں ترقی تو ہے، لیکن توازن، شفافیت اور عوامی خوشحالی کا فقدان ہے۔

بھارت کی معاشی کامیابی اور بین الاقوامی حیثیت کے باوجود، کم خوشی کا درجہ، بڑھتی ہوئی عدم برداشت، اندرونی عدم استحکام اور آزادیِ صحافت کی گرتی صورتحال نے اس کی ترقی کے اثرات کو کمزور کر دیا ہے۔

پاکستان کو جہاں عسکری اور سفارتی کامیابیوں پر فخر ہے، وہیں اسے داخلی سماجی انصاف، ادارہ جاتی اصلاحات اور عوامی فلاح پر بھی توجہ دینا ہوگی،  وہی چیلنجز جن سے بھارت جیسی جمہوریت بھی آج تک نبرد آزما ہے۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *