ویب ڈیسک۔ بھارت میں سکھوں کے مقدس مذہبی مقام، گولڈن ٹیمپل (شری ہرمندر صاحب) کو بم دھماکے سے اڑانے کی مسلسل دھمکیاں سامنے آئی ہیں، جو سکھ برادری کے ساتھ دہائیوں سے جاری امتیازی سلوک، ریاستی جبر اور شناخت مٹانے کی کوششوں کا تسلسل قرار دی جا رہی ہیں۔
آزاد ریسرچ کے مطابق یہ دھمکیاں کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ سکھ قوم کی تاریخ میں ہونے والے طویل اور دردناک مظالم کا حصہ ہیں۔ 1984 میں “آپریشن بلیو اسٹار” کے دوران بھارتی سیکیورٹی فورسز نے گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول کر ہزاروں سکھوں کو شہید کیا تھا، جس کے بعد سکھوں کے خلاف منظم فسادات، ریاستی ہراسانی اور ان کی سیاسی شناخت کو دبانے کی کوششیں جاری رہیں۔
ریسرچ کے مطابق آج بھارت کی خفیہ ایجنسیاں بیرونِ ملک سکھ رہنماؤں اور خالصتان کے حامی کارکنوں کے خلاف ٹرانس نیشنل ٹارگٹ کلنگ مہم چلا رہی ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سکھوں کی خودمختاری کی خواہش کے خلاف ریاستی دشمنی اب سرحدوں سے باہر بھی جاری ہے۔
آزاد ریسرچ کے مطابق گولڈن ٹیمپل کو بم دھماکے کی حالیہ دھمکیاں اسی ریاستی پالیسی کا حصہ معلوم ہوتی ہیں ، جس کا مقصد سکھ برادری کو خوف کے ماحول میں رکھنا، ان کے نظریات کو دبانا اور ہندو بالادستی کے نظریے (ہندوتوا) کو نافذ کرنا ہے، جو اقلیتوں کی شناخت کو مٹانا چاہتا ہے۔ یہ محض سیکیورٹی کی ناکامی نہیں بلکہ تاریخی جبر اور دھمکیوں کا تسلسل ہے، جو سکھ آوازوں کو خاموش کرانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
گولڈن ٹیمپل کو بم سے اڑانے کی دھمکیوں کے حوالے سے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گرچیت سنگھ اوجلا نے کہا کہ
“شری ہرمندر صاحب کے حوالے سے مسلسل دھمکی آمیز ای میلز بھیجی جا رہی ہیں۔ ہم نے اس معاملے پر پارلیمنٹ کے باہر احتجاج بھی کیا۔ پنجاب حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ناکام ہو چکی ہیں۔ جیسے ہی ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوگی، ہم اس پر التوا کی تحریک پیش کریں گے۔ تب تک ہمارا احتجاج پارلیمنٹ کے باہر جاری ہے۔”
اسی معاملے پر پنجاب کانگریس کے صدر امریندر سنگھ راجہ وڑنگ نے کہاکہ
“یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، کیونکہ پچھلے 10 دنوں سے ہرمندر صاحب کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ پنجاب حکومت کو اس کی خبر چھ دن بعد ہوئی، اور کمشنر نے بتایا کہ ایک شخص کو گرفتار کیا گیا ہے، لیکن شناخت کے بعد دوبارہ ای میل موصول ہوئی اور پولیس نے اعتراف کیا کہ وہ غلط شخص تھا۔ ہم نے یہ مسئلہ داخلہ امور کی کمیٹی میں بھی اٹھایا اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس پر فوری توجہ دی جائے، خاص طور پر وزیر داخلہ اس بارے میں بیان دیں اور ہمیں بتایا جائے کہ ہمارے مذہبی مقام کو ای میل کے ذریعے دھمکیاں دینے والا شخص کون ہے۔”