الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے بہار میں ووٹر لسٹ کی ازسرنو تیاری کے متنازع عمل نے شدید تنقید، خدشات اور آئینی بحران کو جنم دے دیا ہے جبکہ قانونی ماہرین اسے مودی سرکار کی منظم دھاندلی بھی قرار دے رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جاری اسپیشل انٹینسیو ریویژن آئین کے اس بنیادی اصول سے انحراف ہے جس کے تحت ہر 18 سال سے زیادہ عمر کے شہری کو خودبخود ووٹنگ کا حق حاصل ہے، بغیر کسی خود رجسٹریشن کے، جیسا کہ امریکا میں ہوتا ہے۔
اس ہنگامہ آرائی کی اصل جڑ الیکشن کمیشن کی وہ ہدایت ہے جس کے تحت شہریوں کو درخواستیں جمع کروا کر اپنے ووٹ ڈالنے کے حق کو ثابت کرنا ہوگا اور اس کے لیے 11 میں سے کسی ایک یا زیادہ دستاویزات کو پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے کمیشن نے 2003 سے اب تک کی تمام ووٹر فہرستوں کو ناقابلِ اعتماد قرار دے دیا ہے، جسے سیاسی مبصرین آئینی روایات سے انحراف قرار دے رہے ہیں۔
آزاد ریسرچ کے مطابق امریکی نظام میں ووٹر رجسٹریشن شہری کی ذمہ داری ہوتی ہے، بھارتی آئین نے یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کو سونپی ہے کہ وہ گھر گھر جا کر فہرست مرتب کرے۔ 1952 کے پہلے عام انتخابات سے اب تک، یہی طریقہ رائج رہا ہے تاکہ نئے اہل ووٹروں کو شامل اور فوت شدگان کو فہرست سے خارج کیا جا سکے، ایک عمل جو ’آزاد اور منصفانہ انتخابات‘ کو یقینی بناتا ہے، جسے سپریم کورٹ نے 1973 میں آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ قرار دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس نئی پالیسی کے نتیجے میں 5 ملین سے زیادہ بہاری شہریوں کے ووٹ کے حق کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، خصوصاً ان لوگوں کو جو مطلوبہ دستاویزات نہیں رکھتے یا دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مزید تضاد یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے آدھار کارڈ، ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ جیسے عام دستاویزات کو ناقابلِ قبول قرار دیا ہے، حالانکہ یہی دستاویزات ماضی میں شناخت کے لیے کافی سمجھی جاتی تھیں۔ حیرت انگیز طور پر، جو دستاویزات کمیشن مانگ رہا ہے وہ آدھار کے بغیر بنتی ہی نہیں ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ شہریت کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں بلکہ وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے۔ باوجود اس کے، کمیشن کا اصرار ہے کہ چونکہ صرف بھارتی شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، لہٰذا وہ اس کی تصدیق کرے گا، حالانکہ جو دستاویزات طلب کی جا رہی ہیں، وہ شہریت کا کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرتیں۔
اپوزیشن، جو بہار کے 60 فیصد ووٹروں کی نمائندگی کرتی ہے، نے کمیشن کے اس عمل پر شدید احتجاج کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر طریقۂ کار تبدیل نہ کیا گیا تو آئندہ بہار انتخابات کا بائیکاٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں یہ سوال اُٹھے گا کہ کیا مودی حکومت واقعی جمہوریت کی پاسدار ہے؟ خاص طور پر جب کہ حکمراں جماعت بی جے پی واحد جماعت ہے جو الیکشن کمیشن کی پالیسی کی حمایت کر رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر واقعی بائیکاٹ ہوتا ہے تو یہ بھارتی جمہوریت پر ایک دھبہ ہوگا اور عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا سپریم کورٹ 28 جولائی کو ہونے والی سماعت میں جمہوری نظام کو بچا پائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن اپنی غلطی تسلیم کر کے پچھلی روش کی طرف لوٹے گا؟ کیا اپوزیشن کی مزاحمت دم توڑ دے گی؟ یا پھر وہ واقعی آئندہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ایک نئی سیاسی روایت ڈالے گی؟
اگلے چند دنوں میں ان سوالات کے جوابات سامنے آئیں گے اور شاید بھارت کے جمہوری مستقبل کا فیصلہ بھی اسی دوران ہو جائے گا۔