عوام کے لیے یہ صرف “چینی کا بحران” نہیں، بلکہ روزمرہ زندگی پر پڑنے والا ایک کڑوا وار ہے جس میں حکومتی دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، اور عوام دہری مار سہہ رہی ہے۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں آٹھ روپے کمی کے باوجود شہر کے عام بازاروں اور گلی محلوں میں چینی کی قیمتوں میں کوئی نمایاں کمی نہیں آئی۔
شہر میں ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں آٹھ روپے کمی کے باوجود بازارو میں چینی سستی نہ ہوسکی، قیمت 190 روپے کلو پربرقرار ہے جبکہ گلی محلوں میں چینی 200 روپے کلو فروخت ہو رہی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لاہور میں شوگر ملز مالکان نے 165 روپے کلو ایکس مل پرائس پر فراہمی کی شرط تو مان لی لیکن چینی کی فراہمی بند کردی ہے ۔
اکبری منڈی میں چینی کا سٹاک خاتمے کے قریب ہے ، کئی روز سے شوگر ملز نے چینی فراہم نہیں کی ہے ، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو چند روز میں چینی کے بحران کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
ڈیلرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ شوگرملز سے 165 روپے کلوکے حکومتی نرخوں پرچینی فراہم نہیں کی جارہی، 165 روپے کلوکے حساب سے چینی ملے گی تو ہی حکومتی نرخ پربیچیں گے ۔
دوسری جانب پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ شوگر ملیں 165 روپے ایکس مل قیمت پر چینی فراہم کر رہی ہیں۔
حکومت اور پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے درمیان معاہدے کے تحت چینی کی ایکس مل قیمت کو مرحلہ وار کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پندرہ جولائی سے یہ قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، جو پندرہ اگست کو 166، پندرہ ستمبر کو 169 اور پندرہ اکتوبر سے 171 روپے فی کلو ہو جائے گی۔
تاہم، ریٹیلرز نے قیمت میں کمی کے باوجود اپنی قیمتیں کم کرنے سے انکار کر دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مہنگا مال خرید چکے ہیں اور اسے کم قیمت پر بیچنا ممکن نہیں۔
وفاقی حکومت نے چینی کے ایکسپورٹرزاورڈیلرزکے خلاف تحقیقات کاآغازکردیاہے اور کئی مل مالکان اورشوگرڈیلرز کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا۔
ذرائع وزارت پیداوار کے مطابق حکومتی معاہدے کے بعد بھی شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز کی طرف سے چینی کی قیمتوں میں کمی ممکن نہیں ہوسکی جس پر وفاقی حکومت ناراض ہے ۔
ادھر، شہری اس صورتحال پر نالاں ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف قیمتوں میں کمی کا اعلان کرنا کافی نہیں، حکومت کو اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ عام صارفین کو ریلیف مل سکے۔