غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں دہلی کی جانب سے مسلط کیے گئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ اگست 2019 میں خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے اب تک 800 سے زائد بھارتی قوانین لاگو کیے گئے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق یہ اعتراف منوج سنہا نے سرینگر میں ایک تقریب کے دوران کیا، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان قوانین کے نفاذ سے تمام شہریوں کے لیے انصاف اور برابری کو یقینی بنایا گیا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے نمائندوں اور سیاسی مبصرین نے ان دعووں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدامات اقوام متحدہ کے منظور شدہ ایک متنازعہ خطے کو زبردستی بھارت میں ضم کرنے اور اس کی الگ شناخت کو ختم کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں :مودی سرکار کا الیکشن کمیشن کو ہائی جیک کرنے کا منصوبہ بے نقاب، سپریم کورٹ بھی ڈٹ گئی
ماہرین کا ماننا ہے کہ ان قوانین کو نام نہاد قانونی اصلاحات کی آڑ میں لاگو کر کے علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کو فروغ دیا جا رہا ہے، اور ساتھ ہی کشمیری عوام کی حقِ خود ارادیت کی جائز تحریک کو کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
منوج سنہا نے اپنی تقریر میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے آئینی انصاف اور محروم طبقات کے لیے حکومتی اقدامات کی مثال دی، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان دعوؤں کو نمائشی قرار دے کر مسترد کر دیا۔
یہ خبربھی پڑھیں :مودی سرکار کی ناکام معاشی پالیسیاں ، ٹیسلا نے بھارت میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے کا منصوبہ ترک کردیا