سماج وادی پارٹی کے صدر اور رکنِ پارلیمان، اکھیلیش یادو نے ’پہلگام فالس فلیگ‘ کے بعد ’آپریشن سندور‘ پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے ’آپریشن مہادیو‘ کے انکاؤنٹر پر بی جے پی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
منگل کو پارلیمنٹ میں ’آپریشن سندور‘ پر بحث کے دوران خطاب کرتے ہوئے اکھیلیش یادو نے سوال اٹھایا ہے کہ کئی پہلگام میں دہشتگردوں کے خلاف کارروائی اب کیوں کی گئی‘، جب کہ میڈیا کئی دنوں سے ’فتحِ کراچی‘ اور ’لاہور میں بھارتی پرچم‘ لہرانے جیسے بیانیے چلا رہا تھا۔
اکھیلیش یادو کا کہنا تھا کہ ’جب میڈیا دشمن ملک کے شہروں پر قبضے کی خبریں چلا رہا تھا، تو حکومت اپنی ہی سرزمین پر شہریوں کی حفاظت میں کیوں ناکام رہی؟ پہلگام واقعے کو ہوئے تقریباً 3 ماہ گزر جانے کے بعد آخر انکاؤنٹر کا وقت کل ہی کیوں چنا گیا؟ کیا یہ میڈیا پریشر کا نتیجہ ہے؟۔
پہلگام حملہ پس منظر
22 اپریل 2025 کو جموں کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام، پہلگام کے بیسارن ویلی میں 5 نامعلوم دہشتگردوں نے سیاحوں پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں اکثریت ہندو سیاحوں کی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق حملہ آور مذہب پوچھ کر نشانہ بنا رہے تھے۔ ایک مقامی مسلمان گھوڑا بان بھی سیاحوں کو بچانے کی کوشش میں حملہ آوروں کی فائرنگ سے جاں بحق ہوا ۔
🚨🚨🚨لوک سبا میں مودی سرکار کا پوسٹ مارٹم
ہمارے بڑے بڑے چینلز نے تو کراچی، لاہور اور آزاد کشمیر پر قبضہ کرلیا تو پھر کیا نوبت آئی کہ ہمیں اپنے مِتر سے کہنا پڑا کہ سیز فائر کرا دیں، سینئیر سیاستدان اور ممبر لوک سبا اکھلیش pic.twitter.com/glwZrVqMp7
بھارتی سیکیورٹی فورسز دعویٰ کر رہی تھیں کہ حملہ آور جدید اسلحے سے لیس تھے، جن میں اے کے۔47 رائفل اور ایم۔4 کاربائن شامل تھیں۔ اس حملے نے نہ صرف ریاستی انتظامیہ بلکہ مرکزی حکومت کے انٹیلیجنس نظام پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے۔
آپریشن ’مہادیو‘ اور حکومت کا مؤقف
تقریباً 3 ماہ بعد 28 جولائی کو سیکیورٹی فورسز نے ’آپریشن مہادیو‘ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہاشم موسیٰ عرف سلیمان سمیت 3 حملہ آوروں کو سرینگر کے قریب انکاؤنٹر کرنے کا دعویٰ کیا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے بغیر تحقیق پارلیمان میں الزام لگایا کہ مارے جانے والے دہشتگردوں کے قبضے سے پاکستانی شناختی کارڈ اور چاکلیٹس برآمد ہوئے تھے، جو پاکستان سے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اکھیلیش یادو کی سخت تنقید
اکھیلیش یادو نے حکومت پر انٹیلیجنس کی ناکامی اور ردعمل میں تاخیر کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر خفیہ معلومات پہلے سے موجود تھیں، تو کارروائی میں تاخیر کیوں ہوئی؟ کیا عوام کی جان ’وی آئی پی‘ سیکیورٹی سے کم قیمتی ہے؟۔
انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے لیے فی کس 10 کروڑ روپے معاوضے اور سرکاری نوکری کا مطالبہ کیا۔ یادو نے مزید کہا کہ اگر ’وی آئی پی‘ تقریبات کے لیے ہزاروں اہلکار تعینات کیے جا سکتے ہیں، تو پہلگام جیسے حساس سیاحتی مقام پر حفاظتی انتظامات کیوں ناکافی تھے؟
میڈیا بیانیہ یا سیکیورٹی حکمتِ عملی؟
اکھیلیش یادو کے بیانات میں سب سے بڑا نکتہ یہ تھا کہ کیا انکاؤنٹر کی ٹائمنگ میڈیا پریشر کے تحت چنی گئی؟ انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی جیسے فیصلے میڈیا کوریج یا عوامی جذبات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ مستند انٹیلیجنس، بروقت حکمتِ عملی اور خودمختاری سے کیے جانے چاہئیں۔
حکومت کی حکمتِ عملی زیرِ سوال
اکھیلیش یادو کے ان بیانات نے قومی سلامتی، انٹیلیجنس تیاری اور حکومت کی ترجیحات پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جہاں حکومت آپریشن مہادیو کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہی ہے، وہیں حزبِ اختلاف اور سویلین سوسائٹی میں یہ سوال گونج رہا ہےکیا عوام کی جان بچانے کے اقدامات بھی اسی سنجیدگی سے لیے جا رہے ہیں، جیسے سرحد پار فتوحات کے دعوے کیے جا رہے ہیں؟