جب ایک ملک کا وزیراعظم ٹیکنالوجی، ہتھیاروں، ڈرونز، راکٹوں اور جنگی مشقوں کو قومی فخر کی علامت بنا دے تو سمجھ لیجیے کہ وہ ملک ترقی نہیں، تباہی کے راستے پر گامزن ہے، آج بھارت اسی موڑ پر کھڑا ہے ،آج مودی حکومت کی قیادت میں بارود، ہتھیار اور تشدد کا علمبردار بن چکا ہے اور خطے میں دہشتگردی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
سوریا ڈروناتھن نامی ایک نئی جنگی تقریب اگلے ماہ ہماچل پردیش کی سپتی ویلی میں منعقد ہونے جا رہی ہے، جہاں جدید بھارتی ڈرونز کی پروازیں، ٹارگٹ مشقیں اور اسلحے کی نمائش ہو گی مگر ذرا سوچیے کیا یہی بھارت کی ترجیح ہے؟ کیا یہی وہ نیا بھارت ہے جس کا خواب عوام کو دکھایا گیا تھا؟
روٹی، تعلیم، علاج سب پیچھے، صرف بارود آگے
ہندوستان میں آج 22 کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، لاکھوں بچے اسکول سے باہر ہیں، کروڑوں نوجوان بے روزگار ہیں اور کسان قرض میں ڈوب کر خودکشیاں کر رہے ہیں مگر مودی حکومت کی توجہ ان مسائل پر نہیں وہ تو دنیا کو دکھانا چاہتی ہے کہ بھارت اب ڈرون پاور ہے
جب ایک ریاستی حکومت لاکھوں روپے صرف اس لیے خرچ کرے کہ پہاڑوں میں ڈرون اڑائے جا سکیں تو کیا یہ سوال نہیں اٹھتا کہ بھارت ایک جنگی شو روم؟ سپتی ویلی جیسے قدرتی خطے جہاں آج بھی کئی دیہات بجلی اور صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں وہاں جنگی مظاہرے کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
جنگی تماشہ ہے یا عوامی توہین؟
یہ ڈرون شو مودی سرکار کے اس بیانیے کا حصہ ہے جو ہر مسئلے کا حل فوجی طاقت میں تلاش کرتا ہے چاہے وہ چین سے سرحدی کشیدگی ہو یا پاکستان سے فرضی خطرہ اصل مسئلے مہنگائی، بے روزگاری، صحت، تعلیم سب کو ایک طرف دھکیل کر قوم کوہندو ازم کے بخار میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔
یہ وہی حکمت عملی ہے جو دنیا کی آمرانہ حکومتیں اپناتی ہیں عوام کو جذباتی نعرے دو، دشمن تخلیق کرو اور حقیقی سوالات کو دبا دو، اگر ایک قوم کے پاس انتخاب ہو کہ وہ یا تو ڈرون خریدے یا بچوں کو تعلیم دے تو مہذب قوم کون سا انتخاب کرے گی؟ مگر مودی حکومت نے اپنے انتخاب واضح کر دیے ہیں وہ سائنسدانوں کی بجائے فوجی افسران کو عزت دیتی ہے استاد کی بجائے ٹی وی اینکرز کو آگے لاتی ہے اور دو وقت کی روٹی کی بجائے جنگی فخر بانٹتی ہے۔
بھارت کو بارود کی نہیں، بصیرت کی ضرورت ہے
سوریا ڈروناتھن جیسے شو وقتی طور پر حب الوطنی کا بخار تو چڑھا سکتے ہیں، مگر وہ عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتے، نہ نوجوانوں کو روزگار دے سکتے ہیں اور نہ کسانوں کی فریاد سن سکتے ہیں۔