مودی سرکار کی ’مسلم دشمن‘ پالیسی کھل کر سامنے آگئی، بہار میں لاکھوں مسلمان ووٹرز فہرستوں سے نکال دیے

مودی سرکار کی ’مسلم دشمن‘ پالیسی کھل کر سامنے آگئی، بہار میں لاکھوں مسلمان ووٹرز فہرستوں سے نکال دیے

بھارتی ریاست بہار میں انتخابی فہرستوں کی ابتدائی اشاعت، جو کہ اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے پہلے مرحلے کے بعد جاری کی گئی، نے سیاسی اور سماجی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ فہرست سے 65 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کے نام حذف کر دیے گئے ہیں، جن میں بڑی تعداد مسلم اکثریتی والے اضلاع سے ہے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان 10 اضلاع میں جہاں ووٹرز کے نام سب سے زیادہ حذف کیے گئے ہیں، میں مدھوبنی، مشرقی چمپارن، پورنیہ اور سیتامڑھی شامل ہیں، ان سب اضلاع میں مسلم آبادی سب سے زیادہ ہے، جو کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق 18 فیصد سے 39 فیصد کے درمیان ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر محبوبہ مفتی کا راہول گاندھی کو خط، پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں معاملہ اٹھانے کا مطالبہ

آزاد ریسرچ کے مطابق مدھوبنی میں سب سے زیادہ 3,52,545 فارم واپس نہ ہونے کی اطلاع ہے، جس کے بعد مشرقی چمپارن (3,16,793)، پورنیہ (2,73,920) اور سیتامڑھی (2,44,962) آتے ہیں۔ فارم واپس نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ ووٹرز کا نام انتخابی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔

آزاد ریسرچ کے مطابق اپوزیشن جماعتوں اور سماجی تنظیموں نے اس پر شدید ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ عمل صرف انتظامی کارروائی نہیں بلکہ ایک خاص طبقے، خصوصاً مسلمانوں، مہاجروں، دلتوں اور غریبوں، کو سیاسی عمل سے باہر رکھنے کی منظم کوشش ہو سکتی ہے۔

ادھر الیکشن کمیشن نے سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے ردِعمل سامنے آنے کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ جن ووٹروں کے نام حذف کیے گئے، ان میں 22.3 لاکھ انتقال کر چکے تھے، 36.2 لاکھ نے مستقل رہائش تبدیل کی تھی اور 7 لاکھ سے زیادہ ووٹرز ایک سے زیادہ جگہوں پر درج تھے۔ کمیشن نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 7.24 کروڑ سے زیادہ ووٹروں نے فارم بھرے ہیں اور ان سب کو مسودہ انتخابی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یکم ستمبر تک دعوے اور اعتراضات داخل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:بھارتی ریاستی دہشتگردی بے نقاب،ہیومن رائٹس واچ نے مسلمانوں کی جبری بے دخلی کی تفصیلات جاری کر دیں

ادھر حذف ہونے والے ووٹروں کی تعداد اور مخصوص مسلم اکثریتی علاقوں میں اس رجحان نے شبہات کو جنم دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال نہ صرف اقلیتی برادریوں کو مزید حاشیے پر دھکیل سکتی ہے بلکہ جمہوری عمل پر عوامی اعتماد کو بھی متزلزل کر سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک سیاسی طور پر منقسم فضا سے گزر رہا ہے۔

اب تمام نظریں اس بات پر مرکوز ہیں کہ الیکشن کمیشن آئندہ کے مراحل میں اعتراضات اور اصلاحات کے عمل کو کتنی شفافیت اور انصاف کے ساتھ مکمل کرتا ہے، جو آنے والے انتخابات سے قبل عوامی اعتماد کے لیے ایک اہم امتحان ہوگا۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *