اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو مبینہ طور پر غزہ پٹی پر مکمل فوجی قبضے کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنے والے ہیں، جس نے عالمی برادری میں گہری تشویش اور مذمت کو جنم دیا ہے۔
متعدد اسرائیلی میڈیا اداروں بشمول آئی 24 نیوز، دی یروشلم پوسٹ، چینل 12 اور وائے نیٹ کے مطابق، نیتن یاہو کی جنگی کابینہ منگل کو باقاعدہ منظوری کے لیے اجلاس منعقد کرے گی۔
اس منصوبے کے تحت اسرائیل کی فوجی کارروائیاں غزہ کے تمام علاقوں تک پھیل جائیں گی، حتیٰ کہ ان علاقوں میں بھی جہاں اسرائیلی یرغمالیوں کی موجودگی کا شبہ ہے۔
فیصلہ ہو چکا ہے
چینل 12 نے نیتن یاہو کے دفتر کے ایک سینیئر اہلکار کے حوالے سے کہا کہ ’حماس بغیر مکمل ہتھیار ڈالے یرغمالیوں کو رہا نہیں کرے گی اور ہم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے‘۔ اگر ہم نے اب کارروائی نہ کی تو یرغمالی بھوک سے مر جائیں گے اور غزہ حماس کے قبضے میں ہی رہے گا‘۔
یہ بیان اسرائیلی قیادت کے مزید سخت مؤقف کی عکاسی کرتا ہے، جب کہ جنگ دو سال کے قریب پہنچ چکی ہے اور اس کا کوئی واضح حل نظر نہیں آ رہا ہے۔
انسانی بحران میں شدت
یہ پیش رفت ایسے وقت سامنے آئی ہے جب غزہ میں انسانی حالات مزید ابتر ہو چکے ہیں اور اسرائیل کی فوجی کارروائیوں پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔
غزہ کے طبی حکام کے مطابق، صرف پیر کو اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 74 فلسطینی مارے گئے، جن میں 36 وہ افراد شامل تھے جو خوراک کی امداد کے انتظار میں کھڑے تھے۔
حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو، جس میں دو اسرائیلی یرغمالیوں روم براسلاوسکی اور ایویاتار ڈیوڈ کو انتہائی لاغر حالت میں دکھایا گیا، نے اسرائیل میں حکومت پر فوری کارروائی کے مطالبات کو مزید بڑھا دیا ہے۔
نیتن یاہو کا دوٹوک مؤقف
بین الاقوامی اور ملکی دباؤ کے باوجود نیتن یاہو اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔انہوں نے پیر کو کابینہ اجلاس میں کہا کہ ’ ہمیں متحد ہو کر جنگ کے تمام مقاصد حاصل کرنے کے لیے لڑنا ہوگا ’دشمن کی شکست، اپنے یرغمالیوں کی رہائی اور یہ یقینی بنانا کہ غزہ اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہے‘۔
حماس کا ردعمل
ادھر حماس نے اس منصوبے کی شدید مذمت کی ہے اور اسرائیل اور اس کے اتحادیوں، بالخصوص امریکا پر غزہ میں ’مظالم‘ پر خاموشی اختیار کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ حماس کے سینیئر رہنما اسامہ حمدان نے اسرائیلی قیادت کو یرغمالیوں کی حالت زار کا مکمل ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ وہ جنگ بندی معاہدے سے انکار کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
انسانی جانوں کا بھاری نقصان
غزہ کی صحت حکام کے مطابق اکتوبر 2023 سے جاری اس تنازع میں اب تک 60,930 سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں کم از کم 18,430 بچے شامل ہیں۔ اسرائیلی حکام کے مطابق، حماس کے قبضے میں اب بھی 49 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 27 کے مردہ ہونے کا خدشہ ہے۔
عالمی ردعمل اور غیر یقینی صورتحال
فلسطینی وزارت خارجہ نے عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اسرائیلی منصوبہ ایک خطرناک پالیسی تبدیلی یا بین الاقوامی ردعمل کو جانچنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ اگرچہ عالمی رہنماؤں کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا، لیکن سفارتی کوششیں تیز ہونے کی اطلاعات ہیں۔
جیسا کہ جنگ ایک ممکنہ طور پر اور زیادہ مہلک مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، خدشہ ہے کہ مکمل قبضہ نہ صرف یرغمالیوں کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ شہری آبادی کے لیے بھی تباہ کن نتائج لائے گا۔