خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات میں غیر شفاف ٹھیکوں اور مالی بے ضابطگیوں سے 7 ارب روپے سے زائد کا نقصان

خیبر پختونخوا کی سرکاری جامعات میں غیر شفاف ٹھیکوں اور مالی بے ضابطگیوں سے 7 ارب روپے سے زائد کا نقصان

خیبرپختونخوا کی مختلف سرکاری جامعات میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں، غیر شفاف ٹھیکوں، زائد ادائیگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ مجموعی طور پر 7 ارب 59 کروڑ 45 لاکھ 89 ہزار روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔

اڈیٹر جنرل اف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ رولز2014کے مطابق ٹھیکہ اس کمپنی کو دیا جانا چاہیے جو کام سب سے کم قیمت اور بہتر طریقے سے کرے لیکن یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز سوات کے بوائز اور گرلز ہاسٹل باریکوٹ کیمپس کی تعمیر کا 36 کروڑ 32 لاکھ روپے مالیت کا ٹھیکہ غیر شفاف طریقے سے کنسٹرکشن کمپنی کو دیا گیا۔ ابتدائی ٹینڈر اپریل 2021 میں ہوا جس میں 4 فرمز نے حصہ لیا تھا، لیکن بولی اورمنصوبے سے متعلق نقشوں میں تضاد کے باعث ٹینڈر کو رد کیا گیا اور دوبارہ اشتہار جاری کیا گیا۔ لیکن یہ بات واضح نہیں کی گئی کہ یہ تضاد کیسے ہوا کیونکہ پہلے اس بارے میں کوئی شکایت نہیں تھی ، یونیورسٹی نے ڈیزائن اور نگرانی کے لئے یو ای ٹی پشاور کے کنسلٹنسی سیل کو 6 کروڑ 50 لاکھ روپے سے زائد ادا کیے ،مگر ڈیزائن میں تبدیلی کے باوجود کنسلٹنٹ پر کوئی جرمانہ نہیں لگایا گیا۔

پہلے اور دوسرے ٹینڈر میں وہی چار کمپنیاں شامل تھی اور ٹینڈر دوبارہ اسی کمپنی کو دیا گیا جس کو پہلے دیا گیا تھا، دوبارہ ٹینڈر کے باعث تاخیر اور لاگت میں اضافہ ہوا اور ٹھیکیدار کو قیمت میں اضافے کی مد میں مزید 88 لاکھ 97 ہزار روپے ادا کیے گئے

فنانس ڈپارٹمنٹ خیبر پختونخوا کے اعلامیہ کے مطابق ایسے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو ٹیکس سے مستثنیٰ علاقوں (جیسے پاٹا) میں ہوتے ہیں، کام کی لاگت کا تخمینہ مارکیٹ ریٹ سسٹم 2015 کے مطابق لگانا ہوتا ہے، مگر اس میں 7 فیصد کمی کرنا ضروری ہے تاکہ ود ہولڈنگ ٹیکس کے لیے لاگت میں شامل اضافی رقم کو پورا کیا جا سکے۔
یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز سوات کے مالی سال 2021 سے 2024 کے دوران مختلف ٹھیکیداروں کو کام کے عوض 125 کروڑ 39 لاکھ 75 ہزار روپے ادا کیے گئے۔ لیکن ریکارڈ کی جانچ پڑتال میں معلوم ہوا کہ نہ تو لاگت کے تخمینے میں اور نہ ہی ادائیگیوں میں 7 فیصد کمی کی گئی، حالانکہ یہ رقم پہلے ہی مارکیٹ ریٹ سسٹم میں شامل تھی تاکہ ود ہولڈنگ ٹیکس کا بندوبست کیا جا سکے۔ یعنی 7 فیصد کٹوتی نہ ہونے کی وجہ سے ٹھیکیداروں کو زائد ادائیگی ہوئی جس کی مالیت 8 کروڑ 77 لاکھ 80 ہزار روپے بنتی ہے۔

اڈٹ رپورٹ کے مطابق مذکورہ یونیورسٹی کے ہی چار کیمپسزکبل، باریکوٹ ارکوٹ، باریکوٹ اور کالام میں جاری تعمیراتی منصوبوں پر صرف30 سے 40 فیصد کام مکمل ہونے کی بنا پر ٹھیکدار وں کو 6 کروڑ 94 لاکھ 59 ہزار روپے فنڈز جاری کئے گئے۔ کچھ مہینے قبل جب آڈٹ ٹیم نے معائنہ کیا تو تمام منصوبے ادھورے پائے گئے اور ٹھیکیدار سائٹ سے غائب تھے۔ تاہم کسی بھی منصوبہ میں ٹھیکدار کو پوری رقم ادا نہیں کی جاتی بلکہ فنڈ کا کچھ حصہ ا س مقصد کے لئے رکھا جاتا ہے کہ منصوبے پر کام اچھی طرح مکمل ہو اور اگر بعد میں کوئی نقص یا مسئلہ ائے تو ٹھیکدار اسے ٹھیک کرے، مگر اس رقم کو قبل از وقت جاری کیا گیا جس کوقواعد کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ اڈٹ رپورٹ میں اس اقدام کو سنگین انتظامی غفلت قرار دیتے ہوئے پراجیکٹ ڈائریکٹر کت خلاف محکمانہ کاروائی اور جاری شدہ رقم فوری واپس لینے کی سفارش کی گئی ہے۔

اسی طرح یونیورسٹی آف پشاور کو کمرشل ایریا یونیورسٹی ٹاؤن میں واقع 16 دکانیں طویل عرصے تک انتہائی کم کرایے پر الاٹ کرنے کے باعث 12 کروڑ 70 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ یہ دکانیں 1972 میں وقف رشید ٹرسٹ نے اس شرط پر عطیہ کی تھیں کہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی سے طلبہ اور اساتذہ کو اسکالرشپس دی جائیں گی۔ اس وقت فی دکان کرایہ 150 روپے تھا اور ہر تین سال بعد 25 فیصد اضافہ لازم تھا، مگر 2018 تک فی دکان کرایہ صرف 500 روپے وصول کیا جا رہا تھا، جو مارکیٹ ریٹ سے نہایت کم تھا۔تاہم اڈٹ حکام کے مطابق اگر کرایہ ماہدے کے مطابق ہر تین سال بعد 25فیصد بڑھایا جاتا تو یونیورسٹی کو اتنا نقصان نہ ہوتا، رپورٹ میں ذمہ دارن کے خلاف انکوائری اور مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ وصول کرکے نقصان کی وصولی کی سفارش کی گئی ہے،

اسی یونیورسٹی میں ملازمین کو ہاؤس ریکوزیشن کی مد میں 40 کروڑ 32 لاکھ 17 ہزار روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں، حالانکہ یکم جولائی 2022 سے ہاوس ریکوزیشن کی مد میں پیسے بند کرنے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور سنڈیکیٹ نے بھی منظوری دے دی تھی۔اڈٹ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی اف پشاور نے حکومتی ہدایات اور سنڈیکیٹ کی منظوری کے باوجود ملازمین کو ہاوس ریکوزیشن کی مد میں 40کروڑ 32لاکھ کی غیر قانونی ادائیگیاں کی،رپورٹ میں یونیورسٹی کے خزانچی اور دیگر زمہ دارن کے خلاف انکوائری کی سفارش کی گئی ہے،

اسی طرح ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ نے مالی سال 2022-23 میں ملازمین کو میڈیکل الاؤنس مقررہ سرکاری شرح سے زیادہ دے کر قومی خزانے کو 6 کروڑ 15 لاکھ 63 ہزار روپے کا نقصان پہنچایا۔ سرکاری شرح کے تحت یہ ادائیگی 2 کروڑ 20 لاکھ 58 ہزار روپے ہونی چاہیے تھی، مگر یونیورسٹی نے 8 کروڑ 36 لاکھ 21 ہزار روپے ادا کیئے، رپورٹ کے مطابق محکمہ اعلیٰ تعلیم خیبر پختونخوا نے 7جنوری2021کو ایک اعلامیہ میں واضح کیا تھا کہ میڈیکل الاونس صرف صوبائی حکومت کی مقرر کردہ شرح پر دیا جائے گا جس کے تحت گریڈ1سے گریڈ16تک کے ملازمین کو 1500، گریڈ17کے ملازمین کو1848، گریڈ18کے 2421، گریڈ19کے 3690جبکہ گریڈ20کے ملازمین کو 4378روہے ماہانہ ادا کرنے کی اجازت تھی مگر یونیورسٹی نے اس کے برعکس ادائیگیاں کی،

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کو سبزی منڈی چارسدہ بازار میں قائم 221 دکانوں کا کرایہ منظور شدہ معیار کے مطابق وصول نہ کرنے سے مالی سال 2022-23 میں 4 کروڑ 52 لاکھ 4 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی کے پاس 55کنال زمین ہے جس میں سے 35کنال پر دکانیں قائم کی گئی ہیں۔ بورڈ آف مینجمنٹ کے مطابق کرایہ 30 روپے فی مربع فٹ ہونا چاہیے تھا، جس سے سالانہ آمدنی 6 کروڑ 58 لاکھ روپے بنتی، مگر یونیورسٹی کو صرف 2 کروڑ 6 لاکھ روپے وصول ہوئے۔

شہید بینظیر بھٹو ویمن یونیورسٹی پشاور کو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے پی ایچ ڈی اسکالرز سے واجبات وصول نہ کرنے کے باعث 3 کروڑ 7 لاکھ 49 ہزار روپے اور 3 لاکھ 46 ہزار 890 برطانوی پاؤنڈز کا نقصان ہوا۔ معاہدے کے مطابق سکالرز کو ڈگری مکمل کرنے کے بعد کم از کم پانچ سال یونیورسٹی میں خدمات انجام دینا لازمی تھا، مگر متعدد سکالرز بیرون ملک ہی مقیم ہو گئے یا ڈگری مکمل نہیں کی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ معاملہ متعدد بار سنڈیکیٹ اجلاس میں زیر غور ایا اور واجبات کی وصولی کا فیصلہ بھی کیا گیا لیکن نہ تو رقم وصول کی گئی اور نہ ہی کسی کے خلاف کاروائی ہوئی

رپورٹ میں تمام معاملات کی آزادانہ تحقیقات، ذمہ داران کے خلاف کارروائی، جرمانے عائد کرنے اور سرکاری خزانے کو پہنچنے والے نقصانات کی فوری وصولی کی سفارش کی گئی ہے.

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *