ٹرمپ کی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ

ٹرمپ کی ثالثی میں آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان تاریخی امن معاہدہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے وائٹ ہاؤس میں ایک تاریخی امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں پر محیط دشمنی کا خاتمہ ہو گیا ہے اور مکمل سفارتی تعلقات کی بحالی کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرمپ کی ثالثی تجویز نے امن کا دروازہ کھولا، بھارت کا انکار جنگی ذہنیت کا ثبوت ہے، محسن نقوی

جمعہ کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں یہ معاہدہ جنوبی قفقاز کے ان 2 روایتی حریفوں کے درمیان کئی دہائیوں کے تنازع کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس کا مرکز نگورنو کاراباخ کا علاقہ تھا، جو اکثریتی آرمینیائی آبادی پر مشتمل ایک پہاڑی خطہ ہے۔

آذربائیجان نے 2023 میں اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا، جس کے بعد تقریباً ایک لاکھ نسلی آرمینی باشندے آرمینیا نقل مکانی کر گئے تھے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دستخطی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں کہا کہ ’یہ 35 سال کا تنازع تھا اور اب یہ دونوں ممالک دوست ہیں، اور ہمیشہ دوست رہیں گے‘۔’صدر ٹرمپ کے ساتھ آذربائیجان کے صدر الہام علییف اور آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پاشینیان موجود تھے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ امن، خوشحالی اور شراکت داری کے ایک نئے دور کا آغاز ہے‘۔

معاہدے کی اہم شقیں

امریکی میڈیا کے مطابق معاہدے کے نمایاں نکات میں جنوبی قفقاز سے گزرنے والی ایک اسٹریٹجک ٹرانزٹ راہداری پر امریکا کو خصوصی ترقیاتی حقوق حاصل ہوں گے، جس سے خطے میں توانائی اور وسائل کی برآمدات میں اضافہ ہوگا۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے ساتھ علیحدہ دو طرفہ معاہدے، جن میں توانائی، تجارت اور مصنوعی ذہانت سمیت جدید ٹیکنالوجی میں تعاون کو وسعت دی جائے گی۔

مزید پڑھیں:آرمینیا کا فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

آذربائیجان پر امریکی دفاعی پابندیوں کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، اس سے روس ناراض ہو سکتا ہے کیونکہ وہ اس خطے کو اپنے اثر و رسوخ والا حصہ سمجھتا ہے۔

امریکی حکام کے مطابق، اس راہداری کو غیر رسمی طور پر ٹرمپ روٹ فارانٹرنیشنل پیس اینڈ پراسپیریٹی کا نام دیا گیا ہے اور اب تک 9 بین الاقوامی کمپنیوں، جن میں 3 امریکی کمپنیاں شامل ہیں، نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ آرمینیا اس منصوبے کے لیے امریکا کو طویل مدت کے لیے خصوصی حقوق دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔

خطے میں اسٹریٹجک تبدیلی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں ایک اہم جیو پولیٹیکل تبدیلی کی علامت ہے، جو روس کے کردار کو محدود کر دے گا۔ ’ سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کی ٹینا ڈولبایا کا کہنا ہے کہ ’آرمینیوں اور آذریوں کا امریکی ثالثی میں ہاتھ ملانا روس کے لیے بڑا جھٹکا ہے‘۔

یہ امن معاہدہ مغرب کو روسی پابندیوں سے بچنے کی کوششوں کو روکنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔ ’قفقاز خطہ اب تک پابندیوں کی زد میں آنے والے علاقوں میں سب سے پہلے نمبر پر رہا ہے، ’پابندیوں کے ماہر بریٹ ایریکسن نے کہاکہ ’ یہ معاہدہ مغرب کو آرمینیا اور آذربائیجان سے شراکت داری کا موقع دے گا تاکہ یہ ‘اسمگلنگ نیٹ ورکس’ بند کیے جا سکیں‘۔

یہ بھی پڑھیں:بھارت کا ڈونلڈ ٹرمپ کے ثالثی کے کردار کو ماننے سے انکار، جے شنکر نے حقائق سے منہ پھیر لیا

البتہ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس معاہدے کی کامیابی کا انحصار امریکی شمولیت کے تسلسل پر ہوگا۔ ’ان دونوں ممالک کا تاریخ میں پرامن حل سے زیادہ ناکام مذاکرات اور پرتشدد جھڑپوں کا ریکارڈ ہے‘،’ آزاد علاقائی ماہر اولیسیا وارتانیان نے کہا کہ ’اگر امریکا نے مستقل کردار ادا نہ کیا، تو دوبارہ کشیدگی کے امکانات بڑھ جائیں گے‘۔

ٹرمپ کی عالمی امن کی کوششیں

یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی دوسری مدت کے ابتدائی مہینوں میں خود کو عالمی ثالث اور امن کے علمبردار کے طور پر پیش کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، ٹرمپ پہلے ہی کمبوڈیا اور تھائی لینڈ، روانڈا اور ڈی آر کانگو، اور پاکستان و بھارت کے درمیان سیزفائر کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔

ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ 15 اگست کو الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات کریں گے تاکہ یوکرین کی جنگ کے خاتمے پر بات کی جا سکے۔

دونوں رہنماؤں، علییف اور پاشینیان، نے ٹرمپ کی ثالثی کی تعریف کی اور اعلان کیا کہ وہ انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کریں گے۔

انسانی حقوق پر خدشات

امن معاہدے کے باوجود، انسانی حقوق کی تنظیموں نے واشنگٹن پر زور دیا ہے کہ وہ خطے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز نہ کرے۔ واشنگٹن کی تنظیم فریڈم ناؤ نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ علییف پر آذربائیجان میں قید 375 سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں۔ آذربائیجان نے مغربی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے اسے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ سرد جنگ کے بعد روس کے ارد گرد موجود کئی ’جمے ہوئے تنازعات‘ میں سے ایک کا خاتمہ ہے اور یہ پورے خطے کے لیے ایک طاقتور پیغام ہے۔

اب جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اپنی خارجہ پالیسی میں نئی سمت لے رہی ہے، دنیا کی نظریں اس پر ہوں گی کہ آیا قفقاز میں یہ نازک امن برقرار رہ سکتا ہے یا نہیں۔

editor

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *