امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات میں کشیدگی اس وقت شدت اختیار کر گئی ہے جب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے بھارت کو جاری تجارتی مذاکرات میں ’ ضدی‘ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ سال کے اختتام سے قبل بڑے تجارتی معاہدوں کو مکمل کرنے کے لیے دباؤ کا شکار ہے۔
فاکس بزنس نیٹ ورک کے پروگرام کڈلو میں گفتگو کرتے ہوئے بیسنٹ نے کہا کہ بھارت اور سوئٹزرلینڈ سمیت کئی اہم تجارتی معاہدے ابھی مکمل نہیں ہوئے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ بھارت کے ساتھ مذاکرات توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں ہم ایک اچھی پوزیشن میں ہیں۔ یہ (اکتوبر کی ڈیڈ لائن) ایک خواہش ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم تمام بڑے ممالک کے ساتھ اہم نکات پر متفق ہو سکتے ہیں، اور ہوں گے‘۔
ٹرمپ انتظامیہ کا بھارت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ
بیسنٹ کے ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں بھارت کے ساتھ تجارتی مذاکرات معطل کرنے کی دھمکی دی ہے۔ گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس میں ایک بھارتی صحافی کے سوال پر ٹرمپ نے کہا کہ جب تک محصولات (ٹیرف) کا تنازع حل نہیں ہوتا، تب تک بھارت سے مذاکرات دوبارہ شروع نہیں ہوں گے۔
اس سے چند روز قبل ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا جس کے تحت بھارتی مصنوعات پر محصولات 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دی گئی ہیں۔ انتظامیہ نے اس فیصلے کی وجہ قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے تحفظات خاص طور پر بھارت کی روسی تیل کی درآمدات کو قرار دیا۔
یہ اضافی محصولات 21 دن کے اندر نافذ العمل ہوں گے، البتہ مخصوص مصنوعات اور روانگی کے مرحلے میں موجود اشیا کو وقتی چھوٹ دی گئی ہے۔
بھارت کا سخت ردعمل، قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں
اس صورتحال پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں ’ایم ایس سوامی ناتھن صدی تقریبات‘ سے خطاب کرتے ہوئے دوٹوک مؤقف اختیار کیا۔
انہوں نے کہا، ’ہمارے کسانوں کے مفادات سب سے اہم ہیں۔ بھارت کبھی بھی کسانوں، ماہی گیروں اور ڈیری کسانوں کے مفاد پر سمجھوتا نہیں کرے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔ بھارت اس کے لیے تیار ہے‘۔
مودی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی توانائی درآمدات اور زرعی پالیسیوں کا انحصار قومی مفاد پر ہے اور بھارت بیرونی دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا۔
مستقبل غیر یقینی
اگرچہ وزیر خزانہ بیسنٹ نے امید ظاہر کی کہ اکتوبر تک تجارتی معاہدے طے پا سکتے ہیں، لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ مذاکرات میں چیلنجز درپیش ہیں۔ امریکا میں انتخابی ماحول اور بڑھتی ہوئی جغرافیائی کشیدگی کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور بھارت کے درمیان جامع تجارتی معاہدہ فی الحال مشکل دکھائی دیتا ہے۔
فی الحال دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، جس سے ایسا لگتا ہے کہ یہ تعطل طویل عرصے تک جاری رہ سکتا ہےاور اس کے اثرات دو طرفہ تجارت پر دیرپا ہوں گے۔