سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اہم فیصلے میں ملک کے عدالتی نظام میں تاخیر کے سنگین مسئلے کے حل کے لیے مصنوعی ذہانت (اے آئی ) اور جدید اسمارٹ کیس مینجمنٹ سسٹمز کے فوری نفاذ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
عدالت عالیہ نے خبردار کیا کہ مقدمات میں طویل تاخیر نہ صرف عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم کرتی ہے بلکہ اکثر اوقات انصاف کی مکمل نفی کے مترادف ہوتی ہے۔
یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک نے 2011 کی نیلامی سے متعلق ایک 14 سال پرانے مقدمے میں سنایا، جو 10 سال تک پشاور ہائی کورٹ میں التوا کا شکار رہا اور 2022 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا تھا، لیکن اس کی سماعت نہ ہو سکی۔
عدالت نے درخواست کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ درخواست گزار یا اس کا کوئی نمائندہ عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ ’ عدالت نے قرار دیا کہ ’انصاف میں تاخیر محض انصاف سے انکار نہیں؛ کئی معاملات میں یہ انصاف کے خاتمے کے مترادف ہے‘۔
عدالت نے کہا کہ بروقت انصاف دینا ایک آئینی حق ہے اور عدلیہ کی ساکھ اور عوامی اعتماد کے لیے ناگزیر ہے۔ فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ تاخیر کا سب سے زیادہ نقصان کمزور اور پسماندہ طبقات کو ہوتا ہے جو طویل مقدمات کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، جب کہ اس سے سرمایہ کاری متاثر اور اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس وقت 22 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے صرف 55,941 مقدمات سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔
عدالت نے زور دیا کہ تاخیر پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر ’جدید، جوابدہ اور اسمارٹ کیس مینجمنٹ سسٹم‘ کو اپنایا جائے، جس میں مصنوعی ذہانت جیسے ٹیکنالوجی پر مبنی حل شامل ہوں۔ ایسے نظام عدالتی کارکردگی میں بہتری، شفافیت اور تیزی لا سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ عدالتی اصلاحات کی جانب ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جہاں عدالت نے واضح کیا ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی حل اب انصاف کی فراہمی کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں، تاکہ ہر شہری کو بروقت اور مؤثر انصاف میسر آ سکے۔