امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان الاسکا میں ہونے والی اہم ملاقات کے بعد تیل کی عالمی منڈیاں اتوار کو کاروبار کے آغاز پر مندی کا شکار ہو گئی ہیں۔
اس سمٹ میں صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ امریکا اور روس نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے سیزفائر کے بجائے براہِ راست امن معاہدے کی کوشش کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ یہ مؤقف یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں کے مؤقف سے ہٹ کر ہے، جنہیں اب تک امریکا کی حمایت حاصل تھی۔
تیل کی منڈی کے لیے سب سے اہم خبر یہ رہی کہ صدر ٹرمپ نے روسی تیل خریدنے والے ممالک جیسے چین اور بھارت پر فی الحال کوئی نئے محصولات یا ثانوی پابندیاں عائد نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ اس فیصلے نے فوری فراہمی میں خلل کے خدشات کو وقتی طور پر کم کر دیا ہے۔
آئی سی آئی ایس‘ کے تجزیہ کار اجے پرمار نے کہا کہ’اس کا مطلب ہے کہ روسی تیل کی ترسیل بدستور جاری رہے گی، جو قیمتوں کے لیے منفی اثر رکھتی ہے، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس خبر کا قیمتوں پر قلیل مدتی اثر بہت معمولی ہوگا۔
اس سمٹ سے قبل ہی تیل کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی۔ جمعہ کو برینٹ کروڈ 65.85 ڈالر فی بیرل پر بند ہوا، جبکہ امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ62.80 ڈالر پر بند ہوا، دونوں میں تقریباً ایک ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق مارکیٹ اب واشنگٹن میں پیر کو ہونے والی اہم ملاقات کا انتظار کر رہی ہے، جہاں صدر ٹرمپ یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی سے ملاقات کریں گے۔ رائٹرز کے مطابق، اس ملاقات میں یورپی رہنماؤں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔
’یو بی ایس ‘ کے تجزیہ کار جیوانی اسٹاؤنوو نے کہا کہ ’مارکیٹ کے شرکا یورپی رہنماؤں کے بیانات پر نظر رکھیں گے، لیکن فی الحال روسی فراہمی میں خلل کے خدشات محدود رہیں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’پرائس فیوچرز گروپ کے سینیئر تجزیہ کار فل فلن نے کہا کہ تیل کے تاجر کسی ممکنہ معاہدے کے انتظار میں ہیں۔ ’جب تک کوئی ٹھوس امن معاہدہ سامنے نہیں آتا، تیل کی قیمتیں محدود دائرے میں ہی رہیں گی‘۔ ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ روس پر فوری پابندیوں یا دوسرے ممالک پر ثانوی پابندیوں کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے، جو قیمتوں کے لیے مندی کا باعث ہے‘۔
مغربی پابندیوں، جیسے کہ سمندری تیل کی پابندی اور قیمت کی حد، کے بعد روس نے اپنی تیل کی برآمدات کا رخ ایشیائی ممالک، خصوصاً چین اور بھارت کی طرف موڑ دیا ہے اور موجودہ پالیسیوں کے تحت یہ سلسلہ جاری رہنے کی توقع ہے۔
الاسکا سمٹ نے بلاشبہ عالمی توجہ حاصل کی، لیکن چونکہ فوری طور پر کسی بڑی سپلائی میں خلل کا امکان نہیں ہے، اس لیے تیل کی قیمتوں میں آئندہ دنوں میں صرف معمولی اتار چڑھاؤ متوقع ہے۔