دنیا بھر کی سکھ برادری کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر آج امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
خالصتان کی حامی تنظیموں کی جانب سے منعقدہ اس ریفرنڈم کا مقصد امریکا میں مقیم سکھوں کے درمیان ایک علیحدہ سکھ ریاست ’خالصتان ‘کے قیام کے لیے حمایت کو جانچنا ہے، جو بھارت کے پنجاب صوبے سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے۔
امریکا بھر سے ہزاروں سکھوں کی شرکت متوقع ہے جو واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر اپنی علامتی رائے دہی کریں گے۔ منتظمین کے مطابق یہ ریفرنڈم سکھ قوم کے حق خودارادیت کے اظہار کا ایک جمہوری ذریعہ ہے، جو بین الاقوامی قوانین کے تحت تسلیم شدہ ہے۔
یہ ریفرنڈم 2021 میں شروع ہوا تھا اور اب تک کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، اٹلی، سوئٹزرلینڈ سمیت 8 ممالک میں کامیابی سے منعقد ہو چکا ہے۔ منتظمین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 سالوں میں اس مہم کو بین الاقوامی سطح پر خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے، جس نے سکھوں کے مطالبات کی طرف عالمی توجہ مبذول کروائی ہے۔
امریکی حکام نے اس ریفرنڈم کے انعقاد کی اجازت دے دی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ اظہار رائے اور پرامن اجتماع کی آزادی امریکی آئین کے تحت محفوظ ہے۔ حیران کن طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’خالصتان تحریک‘ کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں کو ایک خط میں سیکیورٹی کی یقین دہانی کراتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ امریکا جمہوری آزادیوں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
اگرچہ یہ ریفرنڈم قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور کسی بھی حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ نہیں ہے، مگر اس نے سیاسی حلقوں میں خاص طور پر بھارت میں خاصی ہلچل مچا دی ہے۔ بھارتی حکومت ایسے ریفرنڈمز کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دیتی ہے اور بیرون ملک مقیم سکھ گروپوں پر علیحدگی پسند نظریات کو فروغ دینے کا الزام لگاتی ہے۔
اس کے باوجود، واشنگٹن ڈی سی میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تعینات ہیں کہ یہ اجتماع پرامن رہے۔
ریفرنڈم کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام بھارت میں، بالخصوص پنجاب میں، سکھوں کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور امتیازی سلوک کے خلاف عالمی توجہ مبذول کروانے کی ایک کوشش ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تحریک بھارت کی سالمیت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اس سے بھارت اور اس کی بیرون ملک مقیم ہندو اور سکھ کمیونٹی کے درمیان کشیدگی بڑھا سکتی ہے۔
آج جب امریکی دارالحکومت میں یہ علامتی ووٹنگ ہو رہی ہے، عالمی نگاہیں اس پر لگی ہوئی ہیں کہ کتنے افراد شرکت کرتے ہیں اور اس تحریک سے کیا پیغام سامنے آتا ہے، یہ ایک غیر رسمی مگر طاقتور اظہار ہے سکھ برادری کے ایک حصے کی سیاسی سوچ کا۔