یہ اعلان منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کے بعد کیا، جس میں سی پیک کی مشترکہ تعاون کمیٹی (جی سی سی ) کے آئندہ اجلاس اور وزیراعظم کے متوقع دورہ چین کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم شہباز شریف 31 اگست سے یکم ستمبر تک شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے بیجنگ جائیں گے، جہاں ان کی چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
احسن اقبال نے بتایا کہ ’وزیراعظم کا دورہ چین سی پیک فیز II کے باضابطہ آغاز کا موقع ہوگا، جس میں دونوں ممالک واضح ترجیحات طے کریں گے اور ٹھوس، قابلِ پیمائش نتائج پر اتفاق کریں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کا مستقبل ’تعداد سے زیادہ معیار‘ پر منحصر ہے اور صرف وہ منصوبے آگے بڑھائے جائیں جو دیرپا، مؤثر اور ادارہ جاتی ترقی میں معاون ثابت ہوں۔
احسن اقبال نے انکشاف کیا کہ اپنے حالیہ دورہ چین کے دوران انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے چینی صدر شی جن پنگ کو 2026 میں اسلام آباد کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے، جو پاکستان اور چین کے درمیان 75 سالہ سفارتی تعلقات کی تکمیل کے موقع پر دی گئی۔
تجارت کے فروغ کے حوالے سے وزیر منصوبہ بندی نے پاکستانی برآمدات کے لیے چینی منڈی میں زیادہ حصہ حاصل کرنے کی ضرورت پر زور دیا اور کاروباری افراد کے ویزہ عمل میں تاخیر کو فوری حل کرنے کی ہدایت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ایک جامع منصوبہ تیار کرنے کا کہا جس سے برآمدات میں تنوع، صنعتی روابط میں اضافہ اور سی پیک کے تحت منڈی تک رسائی کے زیادہ فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
اجلاس میں سی پیک کے مختلف ترجیحی منصوبوں کا بھی جائزہ لیا گیا، جن میں ملتان سکھر موٹروے، آئی ٹی گریجویٹس کی تربیت، مصنوعی ذہانت کے لیے کمپیوٹیشنل انفراسٹرکچر، صنعتی پارکس، مائننگ، خصوصی اقتصادی زونز اور زراعت شامل ہیں۔
احسن اقبال نے چین کی جانب سے پیش کردہ 10,000 تربیتی مواقع سے فائدہ اٹھانے پر زور دیا اور کہا کہ شفاف نظام کے ذریعے ان افراد کا انتخاب ہونا چاہیے جو اداروں کی ضروریات کے مطابق مہارتیں حاصل کر سکیں، تاکہ پاکستان میں پائیدار صلاحیت سازی کو یقینی بنایا جا سکے۔
انہوں نے مصنوعی ذہانت کی معیشت پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 2030 تک ’اے آئی‘ پاکستانی معیشت میں 24.9 کھرب روپے (88.3 ارب ڈالر) کا حصہ ڈال سکتی ہے، جس سے متوقع جی ڈی پی 171 کھرب روپے میں 14.56 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔
زراعت، مینوفیکچرنگ، مائننگ، فِن ٹیک، سافٹ ویئر، توانائی، دفاع، عدلیہ اور بین الاقوامی تعاون جیسے شعبے اے آئی سے 10 سے 30 فیصد تک کی کارکردگی میں بہتری دیکھ سکتے ہیں۔
آخر میں، وزیر منصوبہ بندی نے پالیسی تسلسل، ادارہ جاتی اصلاحات، اور نجی شعبے، تعلیمی اداروں اور تحقیقاتی مراکز کے ساتھ قریبی روابط کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ سی پیک فیز II سے مکمل فائدہ اٹھایا جا سکے اور پاکستان کی معیشت کو پائیدار ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔