سکینڈ ہینڈ گاڑیوں کے نام پر کس طرح لوگ ڈیلرز کے نام لوگوں کو دھوکہ دہی اور فراڈ سے انکی نقدی سے محروم کرتے ہیں اس حوالے سے ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔
آٹو ڈیلر مجاہد خان نے کہا کہ ہمارا المیہ یہ ہےکہ ہم لوگ سستے اور سیل کے چکر میں اکثر دھوکہ خرید لاتے ہیں اور جب تک ہمیں پتہ چلتا ہے اکثر لوگ لٹ چکے ہوتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اچھی اور معیارئ چیز سستی نہیں ملتی، اچھی اور معیاری چیز کی قیمت ہوتی ہے۔ وہ قیمت آپ کو پریشانی سے بچاتی ہے وہ قیمت آپ کو روڈ پر کھڑے ہونے سے بچاتی ہے۔ کوئی بھی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدنے سے پہلے متعلقہ ادارے سے گاڑی ویری فائی کریں، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن سے گاڑی ویری فائی کریں۔ گاڑی کی انوائسز کو چیک کریں اوریجنل ہین کہیں فیک تو نہیں۔ کیونکہ فیک انوائسز پر رجسٹرڈ گاڑیا ں بک رہیں ہیں اور چیسی نمبرز ٹمپرڈ آ رے ہیں۔تو بہتر یہ ہے کہ گاڑی اچھے ادارے سے خریدے اور کستم اور ایکسائز دوں سے گاڑی ویری فائی کریں۔ اور جس شوروم سے آپ گاڑی خرید رہے ہیں انہیں کہیں یہ سب چیزیں کروائیں۔
ملک میں سکینڈ ہینڈ گاڑیوں کی فروخت کے نام پر کس طرح سے لوگوں کو انکی نقدی سےمحروم کیا جاتا ہے اس حوالے سے اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔ ملک کے معروف سیکنڈ ہینڈ آٹو ڈیلر مجاہد بٹ کا کہنا ہے کہ کچھ روز قبل کچھ لوگ ان کے پاس آئے کہ انہیں ایمرجنسی میں ایک گاڑی سیل کرنئ ہےاور وہ گاڑی فلاں مقام پر کھڑی ہے۔
، انہوں نے کہا کہ وہ انکی بتلائی ہوئی جگہ پر پہنچیں تو وہاں وہ بیش قیمت گاڑی موجود تھی جس کی مارکیٹ ویلیو پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ آٹو ڈیلر نے کہا کہ میں نے ان سے قیمت پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جو مناسب ہو وہ بتا دیں ، میں نے اندازا پانچ کروڑ گاڑ ی کے چار کروڑ بتائیں جس پر انہوں نے کہا کہ کچھ اور بڑھائیں ، میں سمجھ گیا کہ یہ فراڈکا معاملہ ہے کیونکہ وہ لوگ پانچ کروڑ کی گاڑی چار کروڑ میں دینے کو تیار تھے،۔
میں نے ان سے کہا کہ مالک کو بلا لیں تو انہوں نے کسی کو کال کی اور دو لوگ ہنڈا سٹی میں آئیں جو کسی طور پر بھی اس پانچ کروڑ کی گاڑی کے مالک نہیں لگتے تھے۔ انہوں نےکہا کہ آپ ہمیں 15-20 لاکھ ٹوکن کروائیں تو میں نے کہا کہ میں کیسے آپ پر یقین کروں کہ آپ جس پر وہ لوگ گاڑی میں بیٹھ کر کسی سے بات کرنے لگے۔یہ لوگ اصل میں 20-25 لاکھ فراڈ کرنے والے لوگ تھے۔
میں جانتا تھا یہ لاہور میں کس شوروم کی گاڑی ہے اور اس شوروم کے مالک کے کیساتھ بھی میرے اچھے مراسم ہیں جب میں نے اسی وقت انہیں کال کر کے اس گاڑی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ 490 لاکھ کی فائنل ہے یہ گاڑی تو میں نے انہیں کہا کہ آپ کے شوروم کے باہر یہ گاڑی مجھے چار کروڑ کی دینے کی آفر ہے، وہ نیچے آئے تو وہ لوگ کھسک گئے۔
انہو ں نے کہا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اسلام آباد سے رینٹ کی گاڑی اٹھاتا ہے ااور لاہور 45 لاکھ کی گاڑی 40 لاکھ میں یہ کہہ کر بھیجنے کی کوشش کر تے ہیں کہ بینک لیز کی گاڑی ہے ہم کلیئر کروا کر دیں گے آپ 10-15 لاکھ ٹوکن کے دیتے ہین اور گاڑی لیتے ہیں تو کچھ دن بعد رینٹ کمپنی کے لوگ آ جاتے ہیں پولیس کو لیکر یہ رینٹ کی گاڑی ہے اور آپ ٹوکن دیکر پھنس جاتے ہیں۔