بھارت کے صوبہ ہماچل پردیش کی ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ صرف ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کہنا بغاوت کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک بھارت کے خلاف نفرت یا علیحدگی پسندی کو نہ بھڑکایا جائے، یہ جرم نہیں ہے۔
بھارت کے ایک بڑے اردو اخبار کی رپورٹ کے مطابق، بار اینڈ بنچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہماچل پردیش ہائی کورٹ نے منگل کو کہا کہ کسی دوسرے ملک کی تعریف کرنا بغاوت نہیں، جب تک اس میں بھارت کی مذمت، علیحدگی پسندی یا تخریبی سرگرمیوں کو بھڑکانے کا عنصر شامل نہ ہو۔
عدالت نے مشاہدہ کیا: ’’اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کی تعریف کرے اور اپنی مادرِ وطن کی مذمت نہ کرے تو یہ بغاوت کا جرم نہیں بنتا کیونکہ اس سے نہ تو مسلح بغاوت بھڑکتی ہے اور نہ ہی تخریبی یا علیحدگی پسند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ ابتدائی طور پر ملزم کو جرم سے جوڑنے کے لیے کافی مواد موجود نہیں۔
یہ ریمارکس ہائی کورٹ کے جسٹس راکیش کینتھلا نے اس وقت دیے جب انہوں نے ایک شخص، سلیمان، کو ضمانت دی جس پر الزام تھا کہ اس نے وزیر اعظم نریندر مودی کی اے آئی سے تیار کردہ تصویر کے ساتھ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے الفاظ شیئر کیے۔
عدالت نے نوٹ کیا کہ اس کیس میں حکومت کے خلاف نفرت یا ناراضی بھڑکانے کا کوئی الزام موجود نہیں اور ملزم کی حراست جاری رکھنے کے لیے خاطر خواہ مواد نہیں۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ دفاع کا موقف ہے کہ درخواست گزار کو جھوٹا پھنسایا گیا ہے۔
عدالت کے حکم کے مطابق، سلیمان نے 8 جون 2025 کو پولیس کے سامنے سرنڈر کیا اور اسی دن گرفتار ہوا۔ استغاثہ کے مطابق، درخواست گزار نے وزیر اعظم کی ایک اے آئی سے بنائی گئی تصویر شیئر کی تھی جس پر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ لکھا تھا، اور اس پوسٹ کو اشتعال انگیز اور قومی مفاد کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ تاہم عدالت نے درخواست گزار کی حالت کو مدنظر رکھا اور کہا کہ وہ ایک غریب، ان پڑھ ریڑھی والا ہے جو پھل بیچ کر گزر بسر کرتا ہے۔ اس کے پاس سوشل میڈیا چلانے کی مہارت نہیں، اس کا فیس بک اکاؤنٹ اس کے بیٹے نے بنایا اور مدعی، جسے اس کے موبائل تک رسائی تھی، نے متنازعہ ویڈیو شیئر کی۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ درخواست گزار اور مدعی کے درمیان مالی لین دین موجود تھا جو شکایت کے پیچھے بدنیتی کی نشاندہی کرتا ہے۔
مزید یہ کہ، سلیمان گزشتہ 24 برسوں سے پاؤنٹا صاحب میں مقیم ہے اور اس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں پایا گیا۔ پولیس پہلے ہی اس کا موبائل فون قبضے میں لے کر فرانزک جانچ کے لیے بھیج چکی ہے۔ عدالت نے کہا کہ ملزم سے مزید حراستی تفتیش کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ 8 جون 2025 سے حراست میں ہے اور اس کی مزید حراست رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
یاد رہے کہ سلیمان کے خلاف مئی میں سیرمور ضلع کے پاؤنٹا صاحب پولیس نے بھارتیہ نیایا سنہیتا (بی این ایس) کی دفعہ 152 کے تحت مقدمہ درج کیا تھا کیونکہ اس کی پوسٹ کو قومی مفاد کے خلاف اور اشتعال انگیز سمجھا گیا۔ بعد ازاں اس نے 8 جولائی کو پولیس کے سامنے سرنڈر کیا۔
سلیمان کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو جھوٹا پھنسایا گیا ہے اور چونکہ چارج شیٹ پہلے ہی داخل ہوچکی ہے، اس کی مزید حراست کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم ریاست نے دلیل دی کہ اس وقت بھارت اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ ملک دشمن سرگرمی کے مترادف ہے۔ عدالت نے اس مؤقف سے اختلاف کیا اور کہا کہ ملزم کو جرم سے جوڑنے کے لیے کافی مواد موجود نہیں۔