چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی نے عدلیہ کی قانون کی بالادستی کے لیے مسلسل جدوجہد کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام ہمیشہ انصاف، غیر جانبداری اور آئینی اقدار کا محافظ رہا ہے۔
اسلام آباد میں ایک قومی عدالتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عدالتی نظام میں شفافیت صرف ایک اصول نہیں بلکہ انصاف کی فوری اور منصفانہ فراہمی کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک شفاف عدالتی نظام عوام کے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہ ہو۔
چیف جسٹس نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ عدلیہ میں مقدمات کے نظام کو ڈیجیٹل بنانے کا عمل جلد شروع کیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد عدالتی عمل کو تیز، مؤثر اور مزید شفاف بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم عدالتی نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن کی بدولت مقدمات کی نگرانی بہتر ہوگی اور غیر ضروری تاخیر کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے گا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل میں عدالتی نظام میں مصنوعی ذہانت (اے آئی )کے استعمال پر بھی غور کیا جا رہا ہے، تاہم یہ عمل احتیاط کے ساتھ اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔
’چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم مصنوعی ذہانت کے نفاذ میں جلد بازی نہیں کریں گے۔ ٹیکنالوجی کو انصاف کی خدمت کرنی چاہیے، نہ کہ اس پر حاوی ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ڈیجیٹل اصلاحات کے دوران بنیادی حقوق اور عدلیہ کی خودمختاری کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل مرحلہ وار کیا جائے گا، جس کا آغاز اعلیٰ عدالتوں سے کیا جائے گا اور بعد ازاں ضلعی عدالتوں تک توسیع دی جائے گی۔ اس ضمن میں ججز اور عدالتی عملے کو تربیت دینے کا بھی منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اصلاحات کے لیے ایک جامع اور پُرعزم منصوبہ پیش کیا اور کہا کہ یہ منصوبہ 5 بنیادی نکات پر مبنی ہے۔ ان اصلاحات کا مقصد عدالتی نظام کو مؤثر، شفاف اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ بنانا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 5 بنیادی ستونوں پر اصلاحات کی بنیاد رکھی ہے جن میںٹیکنالوجی کے ذریعے سروس ڈیلیوری میں بہتری، رسائی اور شفافیت میں اضافہ، قانونی و ضابطہ جاتی فریم ورک کو مضبوط بنانا، بین الاقوامی و بیرونی وسائل سے فائدہ اٹھانا، منسلک اداروں کی بحالی شامل ہیں۔
ٹیکنالوجی کے ذریعے سروس ڈیلیوری میں بہتری
جسٹس آفریدی نے عدالت میں ڈیجیٹل نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا، جس میں کیس فائلنگ سے لے کر کیسز کی آن لائن ٹریکنگ تک شامل ہے۔ ڈیجیٹل کیس فائلنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ فائلیں اب الیکٹرانک طور پر منتقل ہو رہی ہیں، اور کیسز کی مکمل ٹریکنگ آن لائن ممکن ہے‘۔ مزید اقدامات میں ای کاپیز، ای افیڈیویٹ اور ای ڈیلیوری جیسی سہولیات شامل ہو چکی ہیں۔ سب سے بڑا منصوبہ 61,000 کیس فائلوں کی ڈیجیٹل اسکیننگ ہے، جو 6 ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ہم سب ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی بات کرتے ہیں، لیکن پہلے ہمیں اپنا ریکارڈ ڈیجیٹل بنانا ہوگا۔ ہم نے اسکیننگ کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے بعد ہی اے آئی کا استعمال ممکن ہوگا‘۔
عدالتی رسائی اور شفافیت میں اضافہ
چیف جسٹس نے عدالت کے در و دیوار میں شفافیت اور بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا اور کہا کہ ایک اینٹی کرپشن ہاٹ لائن قائم کی گئی ہے تاکہ عوام شکایات درج کرا سکیں۔ ایک پبلک فیڈبیک پورٹل متعارف کرایا گیا ہے تاکہ نظام میں بہتری کی تجاویز لی جا سکیں۔ پبلک فسیلیٹیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے شہری عدالت سے متعلق تمام ضروری معلومات حاصل کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ سپریم کورٹ آپ کی ہے اگر میں آپ کو دفتر میں آئے بغیر تمام معلومات دے سکوں، تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی‘۔
فنانشل آڈٹ کی تفصیل بتاتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ سپریم کورٹ کا بیرونی آڈٹ مکمل ہو چکا ہے اور نشاندہی کیے گئے مسائل پر عملدرآمد جاری ہے۔ عدالتی عمل کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کے لیے اسٹینڈرڈائزیشن اور کوالٹی ایشورنس کا عمل بھی شروع کیا گیا ہے، جو 9 ماہ میں مکمل ہونے کی توقع ہے۔
قانونی و ضابطہ جاتی فریم ورک کی مضبوطی
چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ قانونی طریقہ کار فرسودہ ہو چکا تھا “1980 کے رولز کے تحت 20 مراحل تھے، جنہیں ہم نے صرف 3 مراحل پر لے آئے۔ لیکن ان کے پیچھے قانونی جواز موجود نہیں تھا‘۔ اس کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی گئی جس کی سربراہی جسٹس شاہد وحید کر رہے تھے۔ اس کمیٹی میں سپریم کورٹ کے دیگر ججز، بار ایسوسی ایشنز، وکلا اور عوام سے تجاویز لی گئیں۔
کئی ماہ کے غور و خوض کے بعد نئے قواعد و ضوابط منظور کیے گئے جو گزشتہ 50 برس میں پہلا بڑا قانونی اقدام ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو ادارہ جاتی ڈھانچے میں محدود کیا جا رہا ہے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔
انہوں نے مثال دی کہ ارلی ہیرنگ اور آؤٹ آف ٹرن فکسنگ کی واضح پالیسی، عدالتی چھٹیوں کے لیے اصول طے کیے گئے، چیف جسٹس اور دیگر ججز کی سیکورٹی و پروٹوکول میں کمی لائی گئی ہے جس کے لیے ریڈ زون میں رہتے ہوئے ججز کو کسی سیکیورٹی پروٹوکول کی ضرورت نہیں ہے، جسٹس آفریدی نے خود کہا کہ میرے ساتھ پہلے سیکیورٹی کی 9 گاڑیاں ہوتی تھیں، تاہم اب میرے ساتھ صرف 2 سیکورٹی گاڑیاں رہیں گی جب میں ریڈ زون سے باہرجاؤں گا۔
بین الاقوامی و بیرونی وسائل سے فائدہ
چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا سے کٹ کر کوئی ادارہ ترقی نہیں کر سکتا۔ انہوں نے متعدد ممالک سے ایم او یوز کے ذریعے تعاون حاصل کرنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ معاہدہ کیا گیا ہے جس کے تحت 40 عدالتی افسران اگلے سال چین تربیت کے لیے جائیں گے، ترکیہ ، بنگلہ دیش، ایران، آذربائیجان، ڈنمارک سے بھی روابط قائم کیے گئے ہیں، سعودی عرب کی مسلم ورلڈ لیگ سے تکنیکی تعاون پر بات چیت جاری ہے۔
مزید یہ کہ لمز کے ساتھ انتظامی اصلاحات کے لیے یادداشت پر دستخط ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ٹیکنالوجی تعاون کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔
منسلک اداروں کی بحالی
چیف جسٹس نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے بتایا کہ اس سال اب تک 70 تربیتی پروگرامز ہو چکے ہیں۔
مشاورتی عمل اور شمولیت
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ بار کے دونوں دھڑوں کو ہر قدم پر اعتماد میں لیا گیا ہے، “ماشاءاللہ، جو جوش و جذبہ میں نے وکلا برادری میں دیکھا، وہ قابلِ تعریف ہے۔ انہوں نے وکلا کو دعوت دی کہ اگر ان کے کوئی اعتراضات یا تجاویز ہیں، تو وہ تحریری طور پر جمع کروائیں۔ ایک کمیٹی انہیں دیکھے گی اور مکمل عدالت میں پیش کرے گی۔ یہ ایک جاندار دستاویز ہے، ہر فل کورٹ اجلاس میں یہ ایجنڈے کا پہلا نکتہ ہوگا‘۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا خطاب سپریم کورٹ کی ادارہ جاتی اصلاحات میں ایک نئے دور کی نوید ہے۔ ڈیجیٹل نظام، شفافیت، قانونی بہتری، عالمی تعاون اور تربیتی اقدامات کے ذریعے سپریم کورٹ کو ایک جدید، موثر اور عوامی ادارہ بنانے کا عزم پیش کیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے ابتدا کر دی ہے۔ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا لیے ہیں۔ ان شا اللہ، ہم نتائج دیں گے‘۔