بھارت میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت میں آزادیٔ اظہار اور صحافت پر قدغنیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی جریدے الجزیرہ اور ڈی ڈبلیو نیوز کی حالیہ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارتی حکومت سنسرشپ کو قانونی جواز دے کر اختلاف رائے کو دبانے کی منظم کوشش کر رہی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے اکتوبر 2024 میں ’سہیوگ‘ پلیٹ فارم کے ذریعے ضلعی افسران اور پولیس کو سنسرشپ کے اختیارات سونپ دیے۔ اس اقدام کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں جیسے میٹا اور گوگل کو حکومت مخالف پوسٹس ہٹانے کے نوٹسز جاری کیے گئے، جب کہ ہزاروں افسران کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ یکطرفہ فیصلہ کر سکیں کہ کونسی معلومات ’غیر قانونی‘ ہیں اور پورے بھارت میں بلاک ہونی چاہییں۔
الجزیرہ نے انکشاف کیا کہ سہیوگ کے تحت اب تک 3,465 یو آر ایلز پر تقریباً 300 سے زیادہ ٹیک ڈاؤن درخواستیں دی جا چکی ہیں۔ حکومت نے سیکشن 79(3)(ب) کا استعمال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے حفاظتی اقدامات کو بائی پاس کیا ہے، جب کہ سیکشن 69A، جو صرف استثنائی حالات کے لیے مخصوص ہے، اس کی جگہ سنسرشپ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
صحافیوں اور میڈیا اداروں کو ہدف بنایا گیا
رپورٹ میں بتایا گیا کہ آزادیٔ صحافت پر حملے کے تحت معروف میڈیا ادارے مکتوب، کشالجمیر ٹائمز کی صحافی انورا دھا بھاسن، حتیٰ کہ بین الاقوامی ادارے رائٹرز کو بھی بلاک کرنے کے احکامات جاری کیے گئے۔
ڈی ڈبلیو نیوز نے مزید انکشاف کیا کہ جب نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ نے ’آپریشن سندور‘ کی ناکامی پر رپورٹ شائع کی تو اسے بھی بلاک کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں اور لکھاریوں کو منظم انداز میں خاموش کرایا جا رہا ہے، جس سے اظہارِ رائے پر قدغن لگائی جا رہی ہے۔
پاکستان مخالف پروپیگنڈا
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستانی صحافیوں، نیوز آؤٹ لیٹس اور سلیبریٹیز کو بڑے پیمانے پر بلاک کیا گیا۔ یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ مغربی بنگال ممتا بینرجی کی ایک میم کو ’قومی سلامتی‘ کے نام پر ہٹانے کی کوشش بھی کی گئی۔
عالمی درجہ بندی میں بھارت کی گراؤٹ
ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق، آزادیٔ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں بھارت 180 ممالک میں سے 151ویں نمبر پر آ چکا ہے، جو مودی سرکار کی میڈیا پالیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔
الجزیرہ نے مودی سرکار کی سنسرشپ پالیسی کو ’آمریت کی عکاسی‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں، ادیبوں اور آن لائن پلیٹ فارمز کو خاموش کر کے اختلاف رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔
بھارت میں جمہوریت اور آزادیٔ اظہار کے مستقبل پر یہ رپورٹس سنگین سوالات کھڑے کر رہی ہیں۔ کیا اختلافِ رائے اب جرم ہے؟ کیا سچ بولنے کی قیمت خاموشی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج بھارت کے ہر باسی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔