پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ ‘اسحاق ڈار’ نے کہا ہے کہ ‘اسرائیل’ کا قطرپرحالیہ فضائی حملہ غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسلامی تعاون تنظیم ‘او آئی سی’ سمیت کئی پلیٹ فارمز پر اس حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے، لیکن اب صرف مذمت سے بات نہیں بنے گی۔
9 ستمبر 2025 کو ‘اسرائیلی’ فورسز نے ‘دوحہ’، ‘قطر’ میں ایک رہائشی علاقے کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا، جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہاں ‘حماس’ کی قیادت موجود تھی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ‘اسرائیل’ نے قطر کی سرزمین پر براہ راست حملہ کیا، جو کہ خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
عرب ٹیلی ویژن الجزیرہ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اس حملے کو ’جارحیت پر مبنی‘، ’غیر قانونی‘، اور ’قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘او آئی سی’ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی مذمت قابلِ تحسین ہے، مگر صرف الفاظ یا مذمت کافی نہیں ہے۔ پاکستان، ‘صومالیہ’ اور ‘الجزائر’ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کر چکا ہے۔
‘اسحاق ڈار’ نے انٹرویو میں کہا کہ اب صرف مذمت سے بات نہیں بنے گی۔ انہوں نے کہا کہ ‘اسرائیل’ کو بین الاقوامی قانون کے تحت قانونی طور پر جوابدہ بنایا جائے۔ اسلامی ممالک کے درمیان ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو ایسے حملوں کا مستقل جواب دے سکے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ‘باب ہفتم’ کے تحت کارروائی کرے تاکہ ‘قطر’ کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا ازالہ ہو۔ انسانی حقوق کی حفاظت اور غزہ جنگ بندی کی کوششوں کو یقینی بنایا جائے۔
اسحاق ڈار نے غزہ میں جاری انسانی بحران پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ’فوری اور غیر مشروط جنگ بندی‘ اور ’بلا رکاوٹ انسانی امداد‘ کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے صومالیہ اور الجیریا کے ساتھ مل کر اقوامِ متحدہ میں خصوصی اجلاس بلانے کی تحریک دی ہے، اور جنیوا میں انسانی حقوق کے ادارے کو بھی متحرک کیا ہے۔
’تقریباً 60,000 افراد شہید اور 160,000 زخمی ہو چکے ہیں۔ خواتین اور بچے بھی نشانہ بنے ہیں۔ کھانے کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے، یہ ناقابلِ قبول ہے،‘ ’ہم امن کے حامی ہیں، لیکن اگر سفارت کاری ناکام ہو جائے، تو پھر عملی اقدامات کرنے ہوں گے‘۔
اسلامی سربراہی اجلاس میں پاکستان کی 7 نکاتی تجویز
وزیرِ خارجہ نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اجلاس میں 7 نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے، تاکہ زبانی بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جا سکیں۔ ان میں ’اُمتِ مسلمہ اب محض بیانات سے مطمئن نہیں ہو گی۔ اگر اسرائیل باز نہیں آتا، تو ہمیں سفارتی، قانونی اور مالیاتی اقدامات کرنے ہوں گے۔‘
انہوں نے اشارہ دیا کہ اسلامی یا عرب ممالک پر مشتمل ایک مشترکہ امن فورس کا قیام بھی زیرِ غور آ سکتا ہے، جو صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہو۔
سیکیورٹی صورتحال پر بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان خطے میں کسی بھی مداخلت کو برداشت نہیں کرے گا، چاہے وہ کسی چھوٹے یا بڑے ملک سے ہو۔ ’ہم ایٹمی طاقت ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر اگر چیلنج کیا گیا، تو جواب ضرور دیں گے، جیسے مئی میں بھارت کو دیا تھا۔‘
بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات
اسحاق ڈار نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان جامع مذاکرات بحال ہونے چاہییں، جن میں ’کشمیر، تجارت، دہشتگردی اور پانی کے مسائل‘ شامل ہوں۔
افغانستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، لیکن پاکستان کی اہم شرط یہ ہے کہ ’ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں‘ کو افغان سرزمین سے ختم کیا جائے یا پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ’ہم نے نہ تو لمبی فہرست دی ہے، نہ مطالبات کیے ہیں۔ صرف دہشتگردوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ ہم ہمسایہ ہیں اور ہمسائے بدلے نہیں جا سکتے۔‘
اقوامِ متحدہ کی ناکامی اور اصلاحات کی ضرورت
انہوں نے اقوامِ متحدہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور فلسطین پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ ہونا اس ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
’اگر قراردادیں ردی کی ٹوکری میں پھینکی جاتی رہیں، تو پھر سلامتی کونسل کا مقصد ہی کیا رہ گیا؟ اگر اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک حکم نہ مانیں، تو پھر سخت پابندیاں یا عملی مداخلت لازم ہے۔‘
امریکا کے کردار پر سوالیہ نشان
اسرائیل کے قطر پر حملے میں امریکا کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ اگر امریکا گارنٹی دے کر بھی حملہ نہ روک سکے، تو پھر اس کی ضمانت کا کیا فائدہ؟ ’اگر امریکا خود کہہ رہا ہے کہ اُسے پتہ نہیں تھا، تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔ پھر اعتماد کیسے کیا جائے؟‘
بھارت کے ساتھ پانی کا تنازع ’ریڈ لائن‘
وزیرِ خارجہ نے خبردار کیا کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے سے یکطرفہ دستبردار ہوا، تو پاکستان اسے ’جنگ کا اعلان‘ سمجھے گا۔ ’یہ معاہدہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ اس سے پیچھے ہٹنا غیر قانونی ہے۔ یہ پاکستان کی ریڈ لائن ہے۔‘
امن کا آخری پیغام
انٹرویو کے آخر میں اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ امن کا حامی رہا ہے، مگر امن انصاف کے بغیر ممکن نہیں۔ ’ہم مکالمے کے لیے تیار ہیں، لیکن صرف ہم ہی کی کوشش کافی نہیں۔ جنگ سے بچنا سب کی ذمہ داری ہے، لیکن اگر مجبور کیا گیا، تو ہم جواب دیں گے۔‘
‘اسحاق ڈار’ کا کہنا ہے کہ جب تک عالمی برادری ‘اسرائیل’ کو قانونی، سیاسی اور سفارتی طور پر جواب دہ نہیں بناتی، ایسے حملے معمول بن سکتے ہیں جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں بلکہ خطے میں امن کو شدید خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔