یورپی یونین نے بھارت کو روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی فوجی شراکت داری اور سستے روسی تیل کی بڑی مقدار میں خریداری پر بالخصوص آزاد تجارتی معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔
بدھ کو برسلز میں خطاب کرتے ہوئے یورپی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے کہا کہ بھارت کی اسٹریٹجک ترجیحات، خاص طور پر روس کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں شرکت اور تیل کی خریداری، یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو گہرا کرنے میں بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:یورپی یونین کی پابندیاں، بھارت کی گرتی ہوئی عالمی ساکھ اور کھوکھلی بیان بازی پھر بے نقاب
بھارت کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے نئی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے کالاس نے کہا کہ ’بالآخر ہماری شراکت داری صرف تجارت پر مبنی نہیں بلکہ قواعد و ضوابط پر مبنی بین الاقوامی نظام کے دفاع پر بھی مشتمل ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘فوجی مشقوں میں شرکت، تیل کی خریداری، یہ تمام عوامل ہماری باہمی شراکت داری کی راہ میں رکاوٹیں ہیں،۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ یورپی یونین کو توقع نہیں کہ بھارت روس سے مکمل علیحدگی اختیار کرے گا اور دونوں فریق ان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
روس، بھارت اور فوجی مشقیں، مغرب کی تشویش
بھارت نے ایران جیسے دیگر روسی اتحادیوں کے ساتھ حال ہی میں ‘زاپاد’ (مغرب) کے نام سے روس اور بیلاروس کی مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا، جن کا کچھ حصہ نیٹو کی سرحدوں کے قریب بھی ہوا، جس سے مغربی ممالک میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
اسی دوران، بھارت روسی تیل کا ایک بڑا خریدار بن کر ابھرا ہے، جس سے اس نے اربوں ڈالر کی بچت کی اور ماسکو کو ایک نیا برآمدی بازار فراہم کیا، جبکہ یورپ میں اس کی روایتی منڈیاں یوکرین جنگ کے بعد بند ہو گئی تھیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ بھارت اور چین پر سخت تجارتی محصولات عائد کرے تاکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی قربتیں بڑھنے لگیں، تجارتی مذاکرات میں اہم پیش رفت کا امکان
تاہم، یورپی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ برسلز کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدے کی کوششوں کے دوران یہ اقدام ممکن نہیں، حالانکہ روسی اداروں کے خلاف پابندیوں کا دائرہ بھارت تک بڑھایا جا سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں کیا گیا۔
امریکا کا دباؤ اور یورپی ردعمل
روس کے ساتھ قربت کے باوجود، یورپی یونین اور بھارت 2025 کے اختتام تک آزاد تجارتی معاہدہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ نئی دہلی کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بھی کشیدگی جاری ہے۔
امریکا اور بھارت کے تعلقات اس وقت متاثر ہوئے جب صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ بھارتی برآمدات پر 50 فیصد تک ٹیرف عائد کر دیا، یہ اقدام بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر ردعمل کے طور پر اٹھایا گیا۔
ادھر روسی صدر پیوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بدھ کو ایک فون کال میں باہمی ‘دوستی اور گرم جوشی پر مبنی تعلقات’ کو سراہا، باوجود اس کے کہ واشنگٹن بھارت پر اقتصادی دباؤ ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جے شنکر اور اجیت ڈوول کا دورہ روس شیڈول، بھارت، امریکا کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟
فون کال کے ایک روز بعد مودی نے امریکی صدر ٹرمپ سے یوکرین جنگ اور تجارتی معاملات پر بات چیت بھی کی تھی۔ پیوٹن نے سرکاری اجلاس کے دوران کہا کہ ’بھارت اور روس کے درمیان تعلقات ہمیشہ اعتماد پر مبنی اور دوستانہ رہے ہیں‘۔
مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر کہا کہ وہ ‘اپنی خصوصی اور مراعات یافتہ اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط کرنے کے لیے پُرعزم ہیں’، اور بھارت ‘یوکرین تنازع کے پرامن حل کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کے لیے تیار ہے’۔
Thank you, my friend, President Putin, for your phone call and warm wishes on my 75th birthday. We are committed to further strengthening our Special and Privileged Strategic Partnership. India is ready to make all possible contributions towards a peaceful resolution of the…
— Narendra Modi (@narendramodi) September 17, 2025