انسٹاگرام کے سربراہ ایڈم موسیری نے واضح کیا ہے کہ یہ خیال درست نہیں کہ ایپ صارفین کے اسمارٹ فون مائیک کے ذریعے ان کی گفتگو سنتی ہے تاکہ ٹارگٹڈ اشتہارات دکھائے جا سکیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈم موسیری نے انسٹا گرام پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ کئی بار یہ الزام سامنے آتا ہے کہ کمپنی صارفین کی باتیں سنتی ہے، مگر حقیقت میں ایسا بالکل نہیں۔ ان کے بقول، یہ عمل پرائیویسی کی سنگین خلاف ورزی ہوگا اور کمپنی ایسا نہیں کرتی۔
یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب میٹا نے اعلان کیا کہ اس کی تمام سوشل ایپس میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) اسسٹنٹ کے ساتھ ہونے والی چیٹس کے ڈیٹا کو اشتہارات کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ایڈم موسیری نے کہا کہ اس مقصد کے لیے کمپنی کو مائیکروفون کی ریکارڈنگ کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ میٹا کے پاس پہلے ہی صارفین سے متعلق کافی ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صارفین کو اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ کسی موضوع پر بات کریں تو اس کے فوراً بعد اسی سے متعلق اشتہارات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دراصل ایسا یا تو اتفاق سے ہوتا ہے یا پھر انسانی نفسیات کی وجہ سے، کیونکہ کئی بار اشتہار پہلے ہی اسکرین پر آ چکا ہوتا ہے لیکن تیزی سے اسکرول کرنے کی وجہ سے یاد نہیں رہتا۔ بعد میں جب دوبارہ وہ اشتہار سامنے آئے تو ایسا لگتا ہے کہ گفتگو سن کر دکھایا گیا ہے۔
ایڈم موسیری نے کہا کہ اگر کمپنی واقعی مائیک استعمال کرتی تو صارفین کے فون پر نشاندہی کرنے والی لائٹ آن ہو جاتی اور بیٹری بھی تیزی سے ختم ہوتی۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ کمپنی کا ریکومینڈیشن سسٹم مختلف ویب سائٹس کے وزٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا اور الگورتھم پر مبنی ہے، جس کی بدولت صارفین کو ان کی دلچسپیوں کے مطابق اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ 2016 میں میٹا (سابق فیس بک) نے اپنے بلاگ میں یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ اشتہارات کے تعین کے لیے فون مائیکروفون کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ بعد ازاں امریکی ایوان نمائندگان میں مارک زکربرگ نے بھی اس کی سختی سے تردید کی تھی۔