غزہ میں 2 سال سے جاری شدید جنگ اور انسانی بحران کے بعد بالآخر امن کی اُمید پیدا ہوگئی ہے، جب فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کو بڑی حد تک قبول کرلیا ہے۔ اس اہم پیشرفت پر امریکی صدر نے فوری ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حماس کا حالیہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک دیرپا اور پائیدار امن کے لیے تیار ہے۔
صدر ٹرمپ نے زور دیا کہ اسرائیل کو غزہ پر فوری بمباری روک دینی چاہیے تاکہ یرغمالیوں کو محفوظ طریقے سے رہا کرایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ خطرناک صورتحال میں قیدیوں کو نکالنا انتہائی حساس عمل ہے اور اس کے لیے فوری طور پر سیز فائر ناگزیر ہے۔
حماس کا مثبت جواب
حماس نے قطر کے ذریعے امریکی امن منصوبے کا باضابطہ جواب دے دیا ہے، جس میں تنظیم نے اسرائیل کے ساتھ مشروط معاہدے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حماس نے اعلان کیا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں جنگ کا خاتمہ کرتا ہے اور اپنی افواج کا مکمل انخلا یقینی بناتا ہے، تو وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے اور لاشیں واپس کرنے پر تیار ہے۔
حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ غزہ کے انتظامی امور ایک آزاد اور غیر جانبدار ادارے کے حوالے کرنے پر رضامند ہے، جو فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل ہوگا۔ اس عبوری ادارے کی تشکیل قومی اتفاق رائے، عرب اور اسلامی دنیا کی حمایت سے ہوگی۔
ٹونی بلیئر کا کردار مسترد
حماس نے سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے کسی بھی کردار کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ فلسطینی نظم و نسق کا اختیار صرف فلسطینیوں کو حاصل ہونا چاہیے۔ تنظیم نے زور دیا کہ وہ غزہ کے مستقبل، فلسطینی عوام کے حقوق اور اسرائیلی قبضے کے مکمل خاتمے تک ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
صدر ٹرمپ کی ویڈیو اپیل اور شکرگزاری
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جاری ایک ویڈیو پیغام میں قطر، ترکیہ، سعودی عرب، مصر، اردن اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس منصوبے کی تشکیل اور پیش رفت میں کلیدی کردار ادا کیا۔
انہوں نے اسے ’بڑا دن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’سب جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے متحد ہیں اور ہم اس مقصد کے حصول کے بہت قریب ہیں‘۔
صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ یہ معاملہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام سے جڑا ہے اور تمام فریقین کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔
غزہ میں جشن، امن کی نئی امید
حماس کے جواب پرغزہ کی گلیوں میں جشن کا سماں ہے۔ عوامی سطح پر خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور کئی علاقوں میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر ممکنہ جنگ بندی اور امن کے آثار پرامید ظاہر کی ہے۔ کئی شہریوں کا کہنا تھا کہ وہ برسوں سے ایسے دن کے منتظر تھے جب انہیں امن اور استحکام کی کچھ خبر سننے کو ملے گی۔
مذاکرات کے اگلے مراحل
ذرائع کے مطابق ثالثی کا عمل تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور قطر کی میزبانی میں اگلے چند دنوں میں اسرائیلی اور فلسطینی نمائندوں کے درمیان براہِ راست یا بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور شروع ہو سکتا ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ اگر فریقین اپنے وعدوں پر قائم رہے تو 2 سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ میں ایک نیا باب شروع ہو سکتا ہے، جس میں تعمیر نو، مہاجرین کی واپسی اور فلسطینی علاقوں میں سیاسی استحکام ممکن ہو سکے گا۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عالمی برادری بارہا غزہ میں انسانی بحران پر تشویش ظاہر کر چکی ہے اور فوری سیز فائر کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ٹرمپ کے منصوبے پر عمل درآمد اگر کامیابی سے ہو گیا تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔