پاکستان میں آٹھ اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے کو آئے آج 20 برس مکمل ہوئے ہیں، اس زلزلے میں تقریباً 85 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
8 اکتوبر 2005 کو 7 اعشاریہ 6 شدت کے زلزلے سے آزاد کشمیر اور ہزارہ ڈویژن سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی تھی ، زلزلے میں آبادیاں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی تھیں اور ہنستے بستے شہر سیکنڈوں میں اجڑ گئے تھے۔
مجموعی طور پر 28000 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ زلزلے کی زد میں آیا جس نے 400 گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا، زلزلے کے باعث دریائےکنہارکےکنارے واقع خوبصورت شہربالاکوٹ مکمل تباہ ہوگیا تھا، آزادکشمیر میں مظفرآباد سے باغ، راولاکوٹ سمیت کئی علاقوں میں تباہی کے دل سوز مناظر تھے۔
ایک اندازےکے مطابق 12000 طلبا و طالبات اور 1500 سے زائد اساتذہ زلزلےمیں زندہ درگور ہوئے، 5 لاکھ سے زائدگھر، سیکڑوں کلومیٹرسٹرکیں، پُل اور ذرائع مواصلات مکمل تباہ ہوئے۔
اس کے علاوہ سول، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس زلزلے کی تباہ کاریوں سے مفلوج ہو چکے تھے ، مشکل کی گھڑی میں پاکستان اور دوست ممالک نے بروقت ریسکیو اور ریلیف آپریشن کر کے زلزلہ متاثرین کو دوبارہ زندگی کی جانب لوٹا نے میں بھر پور کردار ادا کیا۔
قوم زیادہ مضبوط اور متحد ہو کر تابناک مستقبل کی طرف بڑھی ، صدرِ مملکت آصف علی زرداری کا پیغام
8 اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے کی 20ویں برسی پر صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں جاں بحق افراد کو خراج عقیدت اور متاثرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ 8 اکتوبر زلزلے کے بعد قوم زیادہ مضبوط اور متحد ہو کر تابناک مستقبل کی طرف بڑھی۔
صدر مملکت نے کہا ہے کہ ہم اُن تمام لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے قدرتی آفات کا سامنا یکجہتی کے ساتھ کیا، ہماری قوم زیادہ مضبوط، زیادہ متحد اور زیادہ پُرعزم ہو کر ایک تابناک مستقبل کی تعمیر کی طرف بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ اصل طاقت مشکلات سے بچنے میں نہیں بلکہ ایمان، اتحاد اور جدت کے ساتھ اُنہیں عبور کرنے میں ہے۔
آصف زرداری نے اس موقع پر رواں سال آنے والے تباہ کن مون سون سیلاب کا بھی ذکر کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوئے اور زراعت، بنیادی ڈھانچے، خدمات اور روزگار کے شعبوں میں بھاری نقصانات ریکارڈ کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ڈیزاسٹر مینجمنٹ فریم ورک اب خطے کے بہترین ماڈلز میں شمار ہوتا ہے تاہم بار بار آنے والی آفات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ ہم اپنی تیاری کو مزید مضبوط کریں، پائیدار ترقی کو فروغ دیں اور معاشرے کے تمام طبقات کو اس عمل میں شریک کریں۔
صدر مملکت نے تمام سٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ باہمی تعاون سے آفات کے اثرات کو کم کرنے، مشترکہ تیاری کو بڑھانے اور ضرورت مندوں کے تحفظ کے لیے کردار ادا کریں۔
آخر میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک زیادہ محفوظ، زیادہ مضبوط اور زیادہ مستحکم پاکستان بنانے میں اپنی رہنمائی عطا فرمائے۔ آمین۔
بحالی کا کام بدستور جاری
آزاد جموں و کشمیر میں دو دہائیاں گزرنے کے باوجود تعمیرات کے معیار اور شہری منصوبہ بندی میں بہتری کا سفر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔
دو دہائیاں گزرنے کے باوجود مظفرآباد سمیت آزاد کشمیر میں برساتی نالوں میں بھی لوگوں نے پختہ گھر تعمیر کر لئے ہیں، زلزلہ متاثرین کیلئے لنگر پورہ اور ٹھوٹھہ کے علاقوں میں نئی آبادکاری کے منصوبے بنائے گئے، ان علاقوں میں چند گھر ہی تعمیر ہوسکے ہیں۔
8 اکتوبر 2005 کا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا ایک غمگین باب ضرور ہے مگر ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے منصوبہ بندی، تیاری اور اجتماعی تعاون کتنا ضروری ہے۔