سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کے نفاذ اور 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف کیسز کی سماعت بدھ کے روز بھی جاری رہی، جہاں مختلف وکلا نے دلائل دیے اور آئینی نکات پر ججز نے سخت سوالات اٹھائے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بنچ نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ معروف وکیل فروغ نسیم نے کمپنیوں کی جانب سے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ‘سیکشن 31 اے انکم ٹیکس قانون کا حصہ نہیں ہے’۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘مختلف نوٹیفکیشنز کے ذریعے کسٹمز ڈیوٹی مقرر کی جاتی ہے اور اس سیکشن کے بعد امپورٹ پر سیلز ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا’۔
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ ‘میرا کھاتہ 10 ماہ پہلے بند ہو چکا، پھر مجھ پر ٹیکس کیسے لگایا جا سکتا ہے؟’۔ جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے، ‘آپ کہنا چاہتے ہیں باغ ختم نہ کریں، صرف پھل کھائیں؟’۔
دلائل کے دوران جسٹس امین الدین نے کہا کہ ‘اخراجات کے بعد تمام صورتحال واضح ہو جاتی ہے اور ٹیکس ریٹرن سے ہی ٹیکس دہندہ کی اصل پوزیشن سامنے آتی ہے’۔
فروغ نسیم نے دلائل میں بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘وہاں بینکوں پر 21 فیصد ٹیکس ہے جبکہ پاکستان میں 93 فیصد لگایا جا رہا ہے’۔ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی اور فروغ نسیم کل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔
26ویں آئینی ترمیم پر سماعت
دوسری جانب 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر 36 درخواستوں پر سماعت بھی 8 رکنی آئینی بینچ کے سامنے ہوئی، جس کی سربراہی بھی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں۔ دیگر معزز ججز میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران وکیل حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’26 ترمیم رات کے وقت پارلیمنٹ میں لائی گئی’۔ ان کا مؤقف تھا کہ بینچ کی تشکیل کے طریقہ کار میں ترمیم سے چیف جسٹس کے اختیارات محدود کیے گئے ہیں اور اب بنچز بنانے کی اتھارٹی سپریم کورٹ کمیٹی کو منتقل ہو چکی ہے۔
حامد خان نے استدعا کی کہ ‘اس کیس کی فل کورٹ میں سماعت کی جائے، وہ فل کورٹ جو ترمیم کے وقت موجود تھی، یعنی 16 رکنی بینچ’۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ‘ترمیم کے بعد بھی فل کورٹ کے قیام پر کوئی قدغن نہیں، تو آپ نے اپنی استدعا میں یہ بات شامل کیوں نہیں کی؟’
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ ‘کیا ہم آرٹیکل 187 کے تحت فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں؟’ جس پر حامد خان نے جواب دیا، ‘جی، عدالت اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے’۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ‘ہمیں نہ کہیں کہ یہ تصور ہم نے دیا، یہ تو پارلیمان نے دیا ہے’۔ جسٹس محمد علی مظہر نے آرٹیکل 191 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘اگر ہم اسے نظر انداز کریں تو پھر سپریم کورٹ کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے’۔
سماعت کے دوران ججز اور وکلا کے درمیان آئینی نکات پر مفصل مکالمہ ہوا۔ کیس کی سماعت جمعرات ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔