ایک جانب افغانستان کے نگران وزیرِ خارجہ بھارت کے دورے پر موجود ہیں تو دوسری جانب پاکافغان سرحد پر افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں۔
اس صورتحال کودیکھتے ہوئے بھارت افغان گٹھ جوڑ واضح ہوگیا ہے جو پاکستان کے خلاف حالیہ جارحانہ کارروائیوں سے واضح طور پر سامنے آ رہا ہے۔
افغان فورسز نے برامچا، چمن، اور خرلاچی سیکٹرز میں پاکستانی چیک پوسٹوں اور شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جس کے جواب میں پاک فوج نے مؤثر اور بھرپور کارروائی کرتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو تباہ کر دیا۔
یہ خبر بھی پڑھیں :پاک افغان سرحد کے 27 مقامات پر جھڑپیں جاری
سیکورٹی ذرائع کے مطابق پاکستانی فورسز کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا اور کئی افغان اہلکار ہلاک اورزخمی ہوئے۔
افغانستان کی طرف سے یہ کارروائیاں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب افغان وزیرِ خارجہ بھارت کے دورے پر ہیں اور بھارتی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اسٹریٹیجک تعاون اور پاکستان مخالف رویے کا عندیہ ملتا ہے۔
بھارت اور افغانستان کے درمیان حالیہ مشترکہ اعلامیے میں جموں و کشمیر سے متعلق متنازع بیانات اور پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات پر اسلام آباد نے شدید احتجاج کیا تھا۔
دفترِ خارجہ پاکستان نے اس بیان کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔
ادھر وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے افغانستان کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فورسز چوکس ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جا رہا ہےان کا کہنا تھا کہ افغانستان کو بھی بھارت کی طرح منہ توڑ جواب ملے گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان وزیرِ خارجہ کا بھارت میں موجود ہونا اور اسی دوران سرحدی جھڑپوں کا شدت اختیار کرنا محض اتفاق نہیں بلکہ دونوں ممالک کے درمیان پاکستان مخالف مفادات کے گٹھ جوڑ کی جھلک واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔
بھارت طویل عرصے سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور حالیہ واقعات نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔
پاکستان نے کابل حکومت کو سفارتی سطح پر سخت پیغام دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف کسی بھی سرگرمی کے لیے استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی، بصورتِ دیگر جوابی کارروائیاں مزید سخت ہوں گی۔