سپریم کورٹ آف پاکستان میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف دائر کی گئی 36 درخواستوں کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے شروع کی ہے۔ بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔
سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی جا رہی ہے، تاکہ عوامی شفافیت اور اعتماد کو یقینی بنایا جا سکے۔ کیس کی جانب سے دلائل سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری دے رہے ہیں، جنہوں نے کہا کہ یہ کیس ملکی آئینی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس لیے اس کی سماعت فل کورٹ کی صورت میں ہونی چاہیے تاکہ تمام ججز کی مشترکہ رائے سامنے آئے۔
فل کورٹ کی تشکیل پر بحث
عدالت میں فل کورٹ کی تشکیل کے حوالے سے مفصل بحث ہوئی۔ وکیل عابد زبیری نے دلائل دیے کہ 26 ویں آئینی ترمیم سے پہلے کے ججز کو سماعت میں شامل کیا جائے کیونکہ یہ ترمیم بعض ججز کی تعیناتی اور چیف جسٹس کی تقرری میں تبدیلی کا باعث بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر فل کورٹ بنائی جاتی ہے تو اس میں وہ تمام ججز شامل ہونے چاہئیں جن کا تقرر آئینی ترمیم سے پہلے ہوا تھا تاکہ سماعت کا عمل منصفانہ ہو۔
جسٹس جمال مندوخیل اور دیگر ججز نے سوالات اٹھائے کہ سپریم کورٹ میں اس وقت 23 سے 24 ججز موجود ہیں مگر آئینی بینچ میں کم تعداد کیوں ہے اور کیا فل کورٹ کی تشکیل میں تمام ججز کو شامل کیا جائے گا یا صرف مخصوص ججز کو؟ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس محمد علی مظہر نے فل کورٹ کی قانونی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ بھی دراصل ایک بڑا آئینی بینچ ہوتا ہے اور اس کی تشکیل اور حدود آئینی احکامات کے تحت ہونی چاہیے۔
آئینی ترمیم اور اس کے اثرات
دلائل میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد چیف جسٹس اور دیگر ججز کی تعیناتی میں تبدیلی آئی ہے، جس کے باعث یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آیا یہ ترمیم آئین کے خلاف ہے یا نہیں۔ عابد زبیری نے کہا کہ اس ترمیم کے بعد بعض ججز کو فائدہ پہنچا ہے جبکہ بعض ججز اس میں شامل نہیں کیے گئے، جس کی وجہ سے آئینی تنازع پیدا ہوا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ترمیم نہ ہوتی تو موجودہ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نہ بنتے اور اس لیے یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ 26ویں ترمیم کے بعد ججز کی تعداد اور ان کی شمولیت میں فرق ہے اور بعض ججز کو آئینی بینچ میں شامل نہیں کیا گیا۔
آئینی عملدرآمد اور عدالتی حدود
عدالت نے فل کورٹ کی تشکیل اور ججز کی شمولیت کے حوالے سے قانونی پیچیدگیوں پر غور کیا۔ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا آئینی بینچ فل کورٹ کی تشکیل کر سکتا ہے اور کیا چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کے لیے پابند کیا جا سکتا ہے؟
عابد زبیری نے جواب دیا کہ جوڈیشل آرڈر کے بعد چیف جسٹس فل کورٹ بنانے کا پابند ہے اور یہ عدالت کا اختیار ہے کہ وہ سماعت کی نوعیت کے مطابق فل کورٹ تشکیل دے۔
سماعت ملتوی
عدالت نے مزید دلائل سننے کے لیے سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے تاکہ تمام فریقین اپنی رائے مکمل طور پر پیش کر سکیں اور عدالت مناسب فیصلہ کر سکے۔
یہ کیس پاکستان کے آئینی نظام اور عدالتی خودمختاری کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس میں عدالت کی آئینی حدود اور سیاسی فیصلوں کی قانونی حیثیت کا تعین کیا جائے گا۔